• عبادات >> طہارت

    سوال نمبر: 607593

    عنوان: غسل کے بعد وضو کر ناکیساہے ؟

    سوال:

    کیا فرماتے ہیں مفتان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں غسل کے بعد وضو کر ناکیساہے ؟

    جواب نمبر: 607593

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:140-49T/D-mulhaqa=5/1443

     غسل میں سنت یہ ہے کہ پہلے وضوء کرلیا جائے ، پس اگر شروع میں وضوء کرلیا گیا تو غسل کے بعد دوبارہ وضوء کرنے کی ضرورت نہیں ہے ؛ بلکہ فقہاء نے اس کو مکروہ لکھا ہے ؛ہاں اگر غسل مکمل ہونے سے پہلے حدث لاحق ہوجائے تو دوبارہ وضوء کرلینا چاہیے اور اگر غسل کے شروع میں وضوء نہیں کیا اور ایسے ہی پورا غسل کرلیا، تب بھی غسل کے بعد الگ سے وضوء کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، غسل کے ضمن میں وضوء بھی ہوجاتا ہے ۔

    عن عائشة رضی اللہ عنہا قالت: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یتوضأ بعد الغسل. رواہ أبو داود والترمذی والنسائی وابن ماجہ۔ قال الملاعلی القاری : (وعن عائشة قالت: کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا یتوضأ بعد الغسل(أی: اکتفاء بوضوئہ الأول فی الغسل، وہو سنة، أو باندراج ارتفاع الحدث الأصغر تحت ارتفاع الأکبر ; بإیصال الماء إلی جمیع أعضائہ، وہو رخصة۔( مرقاة المفاتیح : ۴۳۰/۲، دار الفکر، بیروت )قال الحصکفی: وقالوا: لو توضأ أولا لا یأتی بہ ثانیا؛ لأنہ لا یستحب وضوئان للغسل اتفاقا، أما لو توضأ بعد الغسل واختلف المجلس علی مذہبنا أو فصل بینہما بصلاة کقول الشافعیة فیستحب۔ قال ابن عابدین: (قولہ: لأنہ لا یستحب إلخ) قال العلامة نوح أفندی: بل ورد ما یدل علی کراہتہ. أخرج الطبرانی فی الأوسط عن ابن عباس - رضی اللہ عنہما - قال: قال رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم - من توضأ بعد الغسل فلیس منا اہ تأمل. والظاہر أن عدم استحبابہ لو بقی متوضئا إلی فراغ الغسل، فلو أحدث قبلہ ینبغی إعادتہ. ولم أرہ، فتأمل.( الدر المختار مع رد المحتار : ۱۵۸/۱، دار الفکر، بیروت)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند