عبادات >> صلاة (نماز)
سوال نمبر: 145382
جواب نمبر: 145382
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 018-043/N=2/1438
اصل تو یہی ہے کہ پہلے تحتانی منزل میں صف بندی کی جائے، اس کے بعد فوقانی منزل میں ،تحتانی منزل میں جگہ ہوتے ہوئے فوقانی منزل میں صف بندی کرنا مکروہ تنزیہی ہے ؛ کیوں کہ تحتانی منزل اصل ہے ، لیکن عذر کی صورت میں تحتانی منزل کا کچھ حصہ چھوڑکر فوقانی منزل میں صف بندی کرنا بلا کراہت جائز ہے جیسے:تحتانی منزل کا باہری حصہ غیر مسقف ہو اور سخت دھوپ یا بارش کی وجہ سے وہاں نماز پڑھنا دشوار ہو ۔ اور مکتب میں عام طور پر چھوٹے بچے پڑھتے ہیں اور وہ نگراں کی عدم موجودگی میں شرارت کرتے ہیں؛ اس لیے اگر ان کی نگرانی اور تربیت کے لیے ان کی نماز کا نظم تحتانی حصہ کے بجائے فوقانی میں رکھا جائے اور وہ بچے اساتذہ کی نگرانی میں فوقانی حصہ سے ہی جماعت میں شرکت کرلیا کریں تو شرعاً بلا کراہت اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے اور اقتدا بہر صورت درست ہے اور نماز وجماعت کا ثواب بھی ہر صورت میں ملے گا۔ ولو صلی علی رفوف المسجد إن وجد في صحنہ مکاناً کرہ کقیامہ في صف خلف صف فیہ فرجة ،قلت: وبالکراھة یضاً صرح الشافعیة وقال السیوطي في ”بسط الکف في إتمام الصف“:وھذا الفعل مفوت لفضیلة الجماعة الذي ھو التضعیف لا لأصل برکة الجماعة فتضعیفھا غیر برکتھا ھي عود برکة الکامل منہ علی الناقص اھ وفی الرد: قولہ:”کرہ “؛لأن فیہ ترکا لإکمال الصفوف والظاھر أنہ لو صلی فیہ المبلغ في مثل یوم الجمعة لأجل أن یصل صوتہ إلی أطراف المسجد لا یکرہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الإمامة، ۲: ۳۱۲،ط: مکتبة زکریا دیوبند)،قولہ:” کرہ“: أي: تنزیھاً لاستعلائہ،……،قولہ: ”وھذا الفعل مفوت الخ “: لیس مذھباً لنا والذي تفیدہ عبارات المذھب الکراھة فقط (حاشیة الطحطاوي علی الدر ۱: ۲۴۶، ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)،نیز فتاوی محمودیہ جدید(۶: ۵۲۷، سوال: ۲۹۴۵، مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل) اور امداد الاحکام (۲: ۱۲۴، ۱۲۵،سوال:۱۷، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) دیکھیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند