• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 145382

    عنوان: مسجد کی پچھلی صفوں کے خالی ہوتے ہوئے مسجد کے بالا خانہ میں نماز پڑھنا ؟

    سوال: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم\nالسلام علیکم؛ کیا فرماتے ہیں مفتیان ِکرام مسئلہ ذیل کے بارے میں،\nہما رے ہاں ایک بڑی مسجد ہے جس میں ایک اصل مسجد والا حصہ ہے جو کہ ۱۵ صفوں پر مشتمل ہے اور دوسرا بالا خانہ جو کہ در اصل مسجد کی دسویں صف سے شروع ہوتا ہیں اور پندرویں صف پر ختم ہوتا ہے، مسجد تقریباً جمعہ کے علاوہ دیگر نمازوں میں ۵/۶ صفوں سے زیادہ نہیں بھرتی ہے ،\nچونکہ اوپر بالا خانہ میں دینیات مکتب چلتا ہے اور نمازوں کے اوقات میں وہی بچوں سمیت نماز پڑھنے کا انتظامیہ کا حکم ہے تاکہ بچے معلمین کی غیر موجودگی میں شور نہ کریں ،\nتو کیا مسجد کی پچھلی صفوں کے خالی ہوتے ہوئے بالا خانہ میں اُسی امام کے پیچھے باجماعت نماز پڑھنا درست ہیں ؟ ۔\nبراہِ کرم مسئلہ کا جواب دونوں زبانوں{اردو،انگریزی}میں ارسال فرما کر ممنون و مشکور ہوں\n فقط۔والسلام\nسائل ؛ حکیم الدین ممبئی \n

    جواب نمبر: 145382

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 018-043/N=2/1438

     

    اصل تو یہی ہے کہ پہلے تحتانی منزل میں صف بندی کی جائے، اس کے بعد فوقانی منزل میں ،تحتانی منزل میں جگہ ہوتے ہوئے فوقانی منزل میں صف بندی کرنا مکروہ تنزیہی ہے ؛ کیوں کہ تحتانی منزل اصل ہے ، لیکن عذر کی صورت میں تحتانی منزل کا کچھ حصہ چھوڑکر فوقانی منزل میں صف بندی کرنا بلا کراہت جائز ہے جیسے:تحتانی منزل کا باہری حصہ غیر مسقف ہو اور سخت دھوپ یا بارش کی وجہ سے وہاں نماز پڑھنا دشوار ہو ۔ اور مکتب میں عام طور پر چھوٹے بچے پڑھتے ہیں اور وہ نگراں کی عدم موجودگی میں شرارت کرتے ہیں؛ اس لیے اگر ان کی نگرانی اور تربیت کے لیے ان کی نماز کا نظم تحتانی حصہ کے بجائے فوقانی میں رکھا جائے اور وہ بچے اساتذہ کی نگرانی میں فوقانی حصہ سے ہی جماعت میں شرکت کرلیا کریں تو شرعاً بلا کراہت اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے اور اقتدا بہر صورت درست ہے اور نماز وجماعت کا ثواب بھی ہر صورت میں ملے گا۔ ولو صلی علی رفوف المسجد إن وجد في صحنہ مکاناً کرہ کقیامہ في صف خلف صف فیہ فرجة ،قلت: وبالکراھة یضاً صرح الشافعیة وقال السیوطي في ”بسط الکف في إتمام الصف“:وھذا الفعل مفوت لفضیلة الجماعة الذي ھو التضعیف لا لأصل برکة الجماعة فتضعیفھا غیر برکتھا ھي عود برکة الکامل منہ علی الناقص اھ وفی الرد: قولہ:”کرہ “؛لأن فیہ ترکا لإکمال الصفوف والظاھر أنہ لو صلی فیہ المبلغ في مثل یوم الجمعة لأجل أن یصل صوتہ إلی أطراف المسجد لا یکرہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الإمامة، ۲: ۳۱۲،ط: مکتبة زکریا دیوبند)،قولہ:” کرہ“: أي: تنزیھاً لاستعلائہ،……،قولہ: ”وھذا الفعل مفوت الخ “: لیس مذھباً لنا والذي تفیدہ عبارات المذھب الکراھة فقط (حاشیة الطحطاوي علی الدر ۱: ۲۴۶، ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)،نیز فتاوی محمودیہ جدید(۶: ۵۲۷، سوال: ۲۹۴۵، مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل) اور امداد الاحکام (۲: ۱۲۴، ۱۲۵،سوال:۱۷، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) دیکھیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند