• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 14461

    عنوان:

    مولانا ہمارے یہاں مسجد میں یہ ماحول ہے کہ فجر کی سنتیں جماعت شروع ہوجانے پر کرتے ہیں یہ ان کی عادت میں شامل ہوگیا ہے، جب دوسری رکعت شروع ہوجاتی ہے تب بھی یہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ سمجھانے پر کہتے ہیں کہ احناف میں جماعت کھڑی ہونے پر بھی سنتیں پڑھنا ضروری ہے۔ کیا یہ صحیح عمل ہے؟ اس کی وجہ سے ہمارے یہاں کا ماحول ایسا ہوگیا ہے کہ فجر کی جماعت شروع کرنے کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ برائے کرم تفصیل سے جواب دیں میں منتظر ہوں۔

    سوال:

    مولانا ہمارے یہاں مسجد میں یہ ماحول ہے کہ فجر کی سنتیں جماعت شروع ہوجانے پر کرتے ہیں یہ ان کی عادت میں شامل ہوگیا ہے، جب دوسری رکعت شروع ہوجاتی ہے تب بھی یہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ سمجھانے پر کہتے ہیں کہ احناف میں جماعت کھڑی ہونے پر بھی سنتیں پڑھنا ضروری ہے۔ کیا یہ صحیح عمل ہے؟ اس کی وجہ سے ہمارے یہاں کا ماحول ایسا ہوگیا ہے کہ فجر کی جماعت شروع کرنے کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ برائے کرم تفصیل سے جواب دیں میں منتظر ہوں۔

    جواب نمبر: 14461

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1216=1156/ب

     

    فجر کی سنتوں کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اس کو گھر سے ادا کرکے مسجد میں آنا چاہیے، حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص فجر کی سنت کو گھر میں ادا کرے اس کے رزق میں وسعت دی جاتی ہے۔ وفي الکافي: قال علیہ السلام: من صلی سنة الفجر في بیتہ یوسع لہ في رزقہ الحاوي (فتاوی تاتارخانیة: ۱/۴۶۹، قدیمی کتب خانہ کراچی) اگر کسی وجہ سے گھر میں ادا نہ کی جاسکے تو خارج مسجد صف کے بارہ کسی کھمبے وغیرہ کا آڑلے ادا کرلینا چاہیے، جو لوگ قصداً فجر کی جماعت شروع ہونے پر سنت ادا کرتے ہیں یہ مکروہ ہے، اور ائمہ ثلاثہ کے نزدیک تو نماز ہی نہیں ہوتی، اس لیے ان کو اس طریقے سے باز آنا چاہیے، اور سنت فجر پہلے سے ادا کرکے تکبیر اولیٰ کے ساتھ جماعت میں شامل ہونا چاہیے، حنفیہ کے نزدیک جو یہ مسئلہ ملتاہے کہ فجر کی جماعت کھڑی ہوگئی ہو اور ایک رکعت ملنے کی امید ہو تو سنت فجر ادا کرکے جماعت میں شامل ہو، یہ سنت فجر کے مہتم بالشان ہونے کی وجہ سے حکم دیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ جب جماعت کھڑی ہو تب سنت ادا کریں اس کی عادت بنالینا کہ جب جماعت شروع ہو اس وقت سنت پڑھی جائے تو یہ کسی طرح درست نہیں: ویکرہ أن یصلي خلف الصفوف بلا حائل، وأشدھا کراہةً أن یصلي في الصف مخالطًا للقوم، وھذا کلہ إذا کان الإمام والقوم في الصلاة (فتاوی تاتارخانیة: ۱/۴۶۹، بیان الأماکن التي یوٴتی فیہا بالسنن، ط․ قدیمی کتب خانہ کراچی)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند