• عبادات >> ذبیحہ وقربانی

    سوال نمبر: 612258

    عنوان:

    قربانی کا گوشت اندازے سے تقسیم کرنا

    سوال:

    عید الاضحی میں کیا سات حصّے والے قربانی کے جانور جیسے بھینس, اونٹ وغیرہ جسمیں ایک سے زیادہ حصّے دار ہوں اُسکا گوشت بنا وزن کیے صرف اندازے سے حصّوں میں تقسیم کر سکتے ہیں جبکہ سب حصّے دار راضی ہو؟ نیز اگر کچھ چیز جیسے کلیجی ،پائے بنا وزن کیے اور باقی گوشت وزن کرکے تقسیم کرے تو کیا یہ جائز ہوگا۔ میںنے ایک مفتی صاحب کے بیان میں سونا ہی کے قربانی کے جانور میں کلیجی وغیرہ بنا وزن کیے اور باقی گوشت وزن کرکے تقسیم کیا اور کسی حصّے دار کے پاس ایک بوٹی بی زائد چلی گئی تو یہ سود کے جملے میں آ جائیگا خواہ حصّے والے راضی ہی کیوں نہ ہو اور بنا طول کیے تقسیم کرنا ہی ہو تو سب چیزیں ایک ساتھ میلانی ہونگی۔ ہمارے علاقے میں یہ طریقہ مشہور ہے کہ عید- ال - اظہا میں جانور کی کلیجي پہلے حصّے والو میں بنا طول کیے بانٹ لی جاتی ہے اور بعد میں گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جاتا ہے جس پر سبھی حصّے والے راضی ہوتے ہن۔ کیا علاقے والو کا ي طریقہ صحیح ہے یا نہیں یہ مفتی صاحب کے بیان والی بات صحیح ہے جلد سے جلد بتانے کی مہربانی کریں۔

    جواب نمبر: 612258

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 1265-956/D=11/1443

     صورت مسئولہ میں حکم یہی ہے کہ قربانی کے جانور میں اگر کئی افراد شریک ہوں اور گوشت ، کلیجی و دیگر اجزاء الگ الگ تقسیم کیے جائیں تو وزن کرکے تقسیم کرنا ضروری ہے، اندازے سے تقسیم جائز نہیں ہے، خواہ تمام شرکاء اندازے سے تقسیم کرنے پر راضی ہوں ؛ البتہ اگر باہمی رضامندی سے تقسیم میں دیگر اعضاء، مثلا:کلہ(سری) پائے، کلیجی وغیرہ کو بھی گوشت کے ساتھ کرلیا جائے اور ہر شریک کے حصے میں ان چیزوں میں سے کچھ نا کچھ آجائے تو خلاف جنس ہونے کی وجہ سے اندازے سے بھی تقسیم کرنا جائز ہوجائے گا ۔

    قال الحصکفی : لا جزافا إلا إذا ضم معه من الأكارع أو الجلد) صرفا للجنس لخلاف جنسه.قال ابن عابدین: (قوله لا جزافا) لأن القسمة فيها معنى المبادلة، ولو حلل بعضهم بعضا قال في البدائع: أما عدم جواز القسمة مجازفة فلأن فيها معنى التمليك واللحم من أموال الربا فلا يجوز تمليكه مجازفة.وأما عدم جواز التحليل فلأن الربا لا يحتمل الحل بالتحليل، ولأنه في معنى الهبة وهبة المشاع فيما يحتمل القسمة لا تصح اهـ وبه ظهر أن عدم الجواز بمعنى أنه لا يصح ولا يحل لفساد المبادلة خلافا لما بحثه في الشرنبلالية من أنه فيه بمعنى لا يصح ولا حرمة فيه (قوله إلا إذا ضم معه إلخ) بأن يكون مع أحدهما بعض اللحم مع الأكارع ومع الآخر البعض مع البعض مع الجلد عناية۔ ( الدر المختار مع ردالمحتار: ۶/۳۱۷، ۳۱۸، دار الفکر، بیروت ) لو أنہم اقتسموا لحمہا جزافا وحلل کل واحد منہم لأصحابہ الفضل لایجوز، لأن الربا لایحتمل الحل بالتحلیل … اقتسموا اللحم جزافا وفی نصیب کل واحد منہم شیئ مما لا یوزن کالرجل والرأس لا بأس بہ إذا حلل بعضہم بعضا۔ (فتاوی قاضیخان: ۳/۲۴۷، زکریا، دیوبند ، جدید،نیز دیکھیے:فتاوی محمودیہ:۲۶/۳۳۲، میرٹھ)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند