• متفرقات >> دیگر

    سوال نمبر: 172096

    عنوان: سودی قرض لے کر تعمیر کردہ عمارت دیکھ کر ما شاء اللہ وغیرہ کہنے کا حکم

    سوال: اگر زید کسی کی بزنس کو دیکھ کر یا مکان کو دیکھ کر کہے ”ما شاء اللہ“ اور پھر بعد میں تنبہ ہو کہ یہ تو اس نے لون لے کیا ہے تو ساتھ میں یہ ٹکڑا جوڑ دے ”کہ اگر جائز طریقے سے کیا ہو تو“ ، تو اس سورت میں (۱) چونکہ ساری چیزیں اللہ کی طرف سے ہوتی ہیں اور زید کا پیچھے وہ ٹکڑا جوڑنا کہ ”اگر جائز طریقے سے کیا ہو تو“ کیا یہ جملہ کفر ہے؟ اس سورت میں کہ زید کی نیت یہ نہ ہو کہ یہ اللہ مرضی کے بغیر ہوا ہے بس یہ ہو کہ ما شاء اللہ جائز چیزوں کے لیے ہی بولنا چاہئے، (۲) وضاحت فرمادیں کہ ایسی صورت میں مثلاً سودی لون سے بنا ہوا مکان یا بزنس وغیرہ وغیرہ ، دیکھ کر ما شاء اللہ کہنا چاہئے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 172096

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1000-867/N=12/1440

    بینک یا کسی بھی ادارے یا شخص سے سودی قرض لے کر مکان خریدنا یا تعمیر کرنا اسلام میں جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ اسلام میں جس طرح سود لینا حرام ہے، اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے ؛ البتہ سودی قرض لینے میں قرض لینے والے کے پاس جو پیسہ آتا ہے،وہ اُس کی ملک ہوجاتا ہے اور اُن پیسوں سے جو مکان خریدا یا تعمیر کیا جاتا ہے، وہ بھی خریدنے والے کی ملک ہوجاتا ہے۔ اور سودی قرض لینے والا بینک وغیرہ کو جو سود دیتا ہے، وہ حرام پیسہ ہوتا ہے، وہ قرض لینے والے کی جیب سے بینک وغیرہ کو تو جاتا ہے؛ لیکن اس کے مکان وغیرہ میں نہیں لگتا؛ اس لیے سودی قرض لے کر خریدے یا تعمیر کیے گئے مکان کے بارے میں ماشاء اللہ وغیرہ کہنے سے آدمی کافر نہیں ہوگا؛ البتہ سودی قرض کا معاملہ کر کے گناہ کا کام کیا گیا ہے؛ اس لیے ایسے مکان وغیرہ سے متعلق ان جملوں سے بچنا اچھا ہے۔

    (۲): سودی قرض لے کر خریدا یا تعمیر کیا گیا مکان وغیرہ دیکھ کر ماشاء اللہ وغیرہ کہنا اچھا نہیں۔ اور اگر کسی نے کہہ دیا تو اس پر کفر کا حکم نہیں ہوگا۔

    وأما حکم القرض فھو ثبوت الملک للمستقرض فی القرض للحال وثبوت مثلہ في ذمة المستقرض للمقرض للحال وھذا جواب ظاہر الروایة، وروي عن أبي یوسف فی النوادر: لا یملک القرض بالقبض ما لم یستھلک الخ (بدائع الصنائع، کتاب القرض، فصل في حکم القرض۱۰:۶۰۰، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، فیصح استقراض الدراھم والدنانیر الخ (التنویر مع الدر والرد، ۷: ۳۸۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، والقرض لایتعلق بالجائز من الشروط فالفاسد منھا لا یبطلہ ولکنہ یلغو شرط رد شییٴ آخر فلو استقرض الدراھم المکسورة علی أ ن یوٴدي صحیحاً کان باطلا (المصدر السابق، ص،۳۹۴)،عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند