• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 55935

    عنوان: كیا بالغہ لڑكی كے لیے ولی كا ہونا ضروری ہے ؟

    سوال: بکر نے کسی وجہ کے بنااور اس وقت طلاق دیدی جب بیوی حاملہ تھی، اور بکر نے دوسری شادی کرلی جب کہ دوسری بیوی سے بکر کو ابھی تک کوئی اولاد نہیں ہے، طلاق کے تقریبا ً تین ماہ بعد مطلقہ بیوی سے ایک بچی کی پیدائش ہوئی ، کچھ عرصہ بعدمطلقہ کے والدین نے اس کا نکاح کسی دوسرے مرد سے کردیا، اب میاں بیوی کی ازدواجی ندگی ٹھیک گذر رہی ہے۔ ادھر بچی کی پرورش اس کے نانا نے کیا ، بچی اب جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھ چکی ہے اور اب جب کہ نانا نانی ضعیفی کی حالت میں ہیں ،چاہتے ہیں کہ بچی کا نکاح کردیں،ا یسے میں معلومات یہ مطلوب ہیں کہ آیا بچی کے نکاح کے لیے ولی کی حیثیت اس کے والد بکر یا ددیہال کے لوگوں کی معتبر ہوگی یا ننیہا ل کی طرف سے نانا وغیرہ کی؟ واضح رہے کہ بچی کے ددیہال کے افرا اور والد نے بچی کی پرورش ، تعلیم و تربیت وغیرہ میں کسی نے کچھ کیا نہیں اور نہ ہی کرنے کی کوئی دلچپسی دکھائی دیتی ہے۔

    جواب نمبر: 55935

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1580-520/L=12/1435-U بالغہ لڑکی اپنے نکاح کے سلسلے میں خود مختار ہے، بالغہ لڑکی کے نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری نہیں ہے، لڑکی کی اجازت سے نانا بھی نکاح کرسکتے ہیں؛ البتہ ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ والد خود ۹/ سال کے بعد اس لڑکی کو اپنی تربیت میں رکھتا اور خود ہی نکاح کرتا، ولي المرأة تزویجہا أبوہا وہو أولی الأولیاء (خلاصة الفتاوی: ۲/۱۸)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند