• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 18495

    عنوان:

    میں شادی شدہ ہوں۔ میری ماں اور باپ میری بیوی سے خوش نہیں ہیں، کیوں کہ اس کو شوگر کی بیماری ہے۔ ہم کو شادی سے پہلے اس کی بیماری کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی تھی۔ میں اپنی بیوی سے محبت کرتاہوں کیوں کہ وہ رحم دل ہے اور میری بہت زیادہ فرماں بردار ہے۔ لیکن شوگر کی وجہ سے وہ اکثر اوقات بیمار ہوتی ہے،جس کی وجہ سے وہ گھر پر صحیح طریقہ سے کام نہیں کرسکتی ہے۔ اس کی وجہ سے میری ماں اور والد ہمیشہ مجھ کو اس کو طلاق دینے کے لیے اور دوسری شادی کرنے کے لیے کہتے رہتے ہیں۔ لیکن آج کوئی بھی شخص اپنی لڑکی کو کسی شخص کی دوسری بیوی کے طور پر نہیں دے رہا ہے۔اب میں کیا کروں؟ کیا میں اپنی بیوی کو رکھوں اور والدین کی نافرمانی کروں اور یا میں اپنے والدین کی اطاعت کرتے ہوئے اس کو طلاق دے دوں؟ لیکن اس صورت میں اس سے کوئی بھی شخص شادی نہیں کرے گا کیوں کہ ہماری جماعت میں کوئی بھی شخص مطلقہ عورت کورشتہ کے لیے نہیں ڈھونڈھتا ہے اگر چہ وہ جسمانی اعتبار سے صحیح ہو۔برائے کرم مجھ کو بتائیں کہ میں کیا کروں؟

    سوال:

    میں شادی شدہ ہوں۔ میری ماں اور باپ میری بیوی سے خوش نہیں ہیں، کیوں کہ اس کو شوگر کی بیماری ہے۔ ہم کو شادی سے پہلے اس کی بیماری کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی تھی۔ میں اپنی بیوی سے محبت کرتاہوں کیوں کہ وہ رحم دل ہے اور میری بہت زیادہ فرماں بردار ہے۔ لیکن شوگر کی وجہ سے وہ اکثر اوقات بیمار ہوتی ہے،جس کی وجہ سے وہ گھر پر صحیح طریقہ سے کام نہیں کرسکتی ہے۔ اس کی وجہ سے میری ماں اور والد ہمیشہ مجھ کو اس کو طلاق دینے کے لیے اور دوسری شادی کرنے کے لیے کہتے رہتے ہیں۔ لیکن آج کوئی بھی شخص اپنی لڑکی کو کسی شخص کی دوسری بیوی کے طور پر نہیں دے رہا ہے۔اب میں کیا کروں؟ کیا میں اپنی بیوی کو رکھوں اور والدین کی نافرمانی کروں اور یا میں اپنے والدین کی اطاعت کرتے ہوئے اس کو طلاق دے دوں؟ لیکن اس صورت میں اس سے کوئی بھی شخص شادی نہیں کرے گا کیوں کہ ہماری جماعت میں کوئی بھی شخص مطلقہ عورت کورشتہ کے لیے نہیں ڈھونڈھتا ہے اگر چہ وہ جسمانی اعتبار سے صحیح ہو۔برائے کرم مجھ کو بتائیں کہ میں کیا کروں؟

    جواب نمبر: 18495

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ب): 40=43-1/1431

     

    جب آپ کی بیوی رحم دل اور فرمانبردار ہے اور آپ کو بھی اس سے محبت اورطلاق کے بعد کسی دوسرے کا اس سے شادی کرنا بہت مشکل ہے لہٰذا اس صورت میں بلا کسی خاص وجہ کے بیوی کو طلاق نہ دیں، بلکہ والدین کو سمجھا بجھاکر راضی کرلیں، گھر کے کام کاج نہ کرپانے کے سبب اس کو طلاق دلوانا صحیح نہیں، اگر استطاعت ہو تو گھر کے کام کاج کے لیے کوئی ملازمہ رکھ لیں تاکہ کام میں سہولت ہو۔ وفي الحدیث ولا تعصین والدیک وإن أمراک أن یخرج من أہلک ومالک وفي المرقاة شرط للمبالغة باعتبار الأکمل أیضا إما باعتبار أصل الجواز فلا یلزمہ طلاق زوجتہ امرأتہ بفراقہا وإن تأذیا ببقائہا إیذاءً شدیدًا إلخ ضمیمہ ثانیہ اصلی بہشتی گوہر گیارہواں حصہ: ۱۴۴، بحوالہ ۱۲/۱۶۱ فتاویٰ محمودیہ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند