• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 155058

    عنوان: كیا پہلی بیوی ہیڈ وائف ہوتی ہے؟

    سوال: حضرت، میری پہلی شادی آٹھ سال پہلے ہوئی، اس سے میری دو بیٹیاں ہیں پھر کچھ وجہ سے میں نے خلع لے لیا اور دوسری شادی ہوگئی جن سے نکاح ہوا وہ خود دو بچوں کے باپ ہیں، میرا نکاح ہوئے اب دو سال ہو چکے ہیں، اس دوران دو بار حمل ہوا اور دوسرے مہینے ہی ساقط ہو گیا اور میرے شوہر کی پہلی بیوی سے تین بیٹیاں ہو گئیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ میرے شوہر روزانہ صبح سات بجے اٹھ کر پہلی بیوی کے پاس چلے جاتے ہیں بچوں کو اسکول چھوڑنے جب کہ پہلی بیوی کے پاس کار اور ڈرائیور دونوں موجود ہیں مگر بہانہ یہ ہے کہ بچے چھوٹے ہیں (جب کہ واپسی میں وہ بچوں کو ڈرائیور کے ساتھ اکیلے لینے جاتی ہے) میں بھی اور میرے بچے بھی اسی اسکول میں ہیں (میں اسی اسکول میں نوکری کرتی ہوں) ہم لوگ وَین (بڑی گاڑی) میں آتے جاتے ہیں، کیا یہ درست ہے کہ تمام سہولت دینے کے باوجود میرے شوہر میری باری میں بھی سات سے گیارہ بجے تک پہلی بیوی کے پاس رہیں، وہیں سے ناشتہ کریں اور تیار ہوکر دفتر جائیں؟ اور اتوار کو جیسے ہی میرے پاس آتے ہیں پہلی بیوی کا فون آجاتا ہے کہ بچہ اچانک بیمار ہو گیا ہے گر گیا ہے اور شوہر فوراً جلے جاتے ہیں دو یا تین گھنٹوں کے لیے، کیا یہ بھی جائز ہے؟ مجھے کہتے ہیں کہ میرے بچوں کے حقوق کا تم سے کوئی تعلق نہیں، کیا بچوں کے حقوق میں یہ شامل ہے کہ ان کا باپ دوسری بیوی کا وقت چھین کر بچوں اور اپنی پہلی بیوی کو دے؟ کیا پہلی بیوی ہیڈ وائف (بیویوں کی مالک) ہے؟ میرے شوہر نے ہم دونوں کے لیے الگ الگ معیار بنایا ہوا ہے کہ پہلی بیوی کی لائف اسٹائل ہائی (اونچی) ہے تو اسے رہنے کے لیے ہائی اسٹینڈرڈ (اونچے معیار کا) دیا ہے، میرے رہنے کی اسٹائل اپنے والدین کی طرف سے درمیانہ تھی اور شوہر صاحب حیثیت ہونے کے باوجود بھی کہتے ہیں کہ اعتدال ہے کہ دونوں کو ان کے شروع کے اسٹینڈرڈ (معیار) سے رکھنا۔ (جیسے مجھے کار کی سہولت نہیں، ڈرائیور نہیں، نوکرانی نہیں، باورچی نہیں) مگر وہاں یہ سب ہے۔ کیا میرے شوہر صحیح کر رہے ہیں؟ کیا دوسری بیوی کے لیے ان کا اس طرح قسم بندی کرنا صحیح ہے؟ اگر میری اولاد ان سے ہوتی بھی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ میں اس بات پر قادر ہوں کہ میری مرضی میں نے اپنی پہلی بیوی کے بچوں کو بہت مہنگا ہائی اسٹینڈرڈ اسکول میں ڈالا ہے اور تم سے ہونے والے بچوں کو میں کسی بھی کام اور لو اسٹینڈرڈ (کم معیار) کے اسکول میں ڈالوں، کیا یہ سب صحیح ہے؟ برائے مہربانی مجھے دین و شریعت کے احکامات کی روشنی میں جواب دیں تاکہ مجھے سکون ہو جائے اعتدال کے بارے میں ۔

    جواب نمبر: 155058

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 81-27T/B=2/1439

    اس کا جواب صحیح دیا جاسکتا ہے جب کہ آپ کے بیان کے ساتھ ساتھ شوہر کا بھی بیان ہو، ویسے جو کچھ آپ نے لکھا ہے اگر یہ مبنی بر حقیقت ہے تو موجودہ طرز معاشرت میں آپ کے شوہر کا رویہ عدل و انصاف سے ہٹا ہوا ہے یہ بے انصافی آپ ہی کے شوہر کے ساتھ خاص نہیں، ہندوستان و پاکستان میں جتنے لوگ بھی دو بیویاں رکھتے ہیں بالعموم ان شوہروں کا یہی حال ہے کہ وہ دو بیویوں میں سے ایک کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کرتے ہیں، اللہ تعالی نے قرآن پاک میں فرمایا ہے: فإن لم تعدلوا فواحدةً یعنی اگر تم بیویوں کے ساتھ عدل نہ کرسکو تو ایک ہی بیوی پر قناعت کرو اس میں گناہوں سے عافیت ہے دو بیویاں رکھنے والے اکثر بہت سارے گناہوں کا بوجھ اپنے سر پر لاد کر دنیا سے جاتے ہیں۔ اللہ تعالی انہیں ہدایت دے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند