• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 609267

    عنوان:

    عورت کا اپنا ولی بدلنا اور دیگر بعض مسائل

    سوال:

    عرض ہے کہ احناف کے یہاں ایک بالغ مسلمان لڑکی بغیر اجازتِ ولی کسی مسلمان مرد سے نکاح کر سکتی ہے ، اور یہ نکاح جائز بھی ہوتا ہے تو میرا سوال یہ کہ کیا احناف کے یہاں ایک بالغ لڑکی اپنی زندگی کے متعلق ولی کی مرضی کے خلاف دیگر فیصلے بھی لے سکتی ہے ؟ ایک بالغ لڑکی کا ولی بالعموم اس کا باپ ہی ہوتا ہے ، کیا وہ بالغ لڑکی اپنا ولی بدل سکتی ہے ؟ مثال کے طور پر ایک بالغ مسلمان لڑکی دارالقضاء یا کورٹ سے کہے کہ اس کا ولی (یعنی اسکا باپ) بڑا ظالم ہے ، اس کے دادا، نانا، چچا بھائی بھی ظالم ہیں اس لئے وہ ان کے علاوہ کسی دوسرے مرد کو یا پھر حکومت کو اپنا ولی بنانا چاہتی ہے جو اس کی حفاظت کر سکے ، اور یہ کہ وہ اپنے باپ بھائیوں ں سے دور حکومت کے دیئے شیلٹر ہوم میں رہنا چاہتی ہے ، کیا کسی بالغ مسلمان لڑکی کا ایسی مانگ کرنا فقہ حنفی کے مطابق جائز ہے ؟ اور کیا کوئی بالغ مسلمان لڑکی جو غیرمسلم ملک میں رہتی ہو غیرمسلم حکومت کو اپنا ولی مقرر کر سکتی ہے ؟ براہ کرم رہ نمائی کریں۔ اس مسئلے پر خالص فقہ حنفی کی رو سے مستند جانکاری چاہیئے ۔

    جواب نمبر: 609267

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 424-360/H-Mulhaqa=7/1443

     (۱ -۴): ولایت ایک شرعی چیز ہے، جو من جانب شرع بعض کو بعض پر بعض حقوق واحکام میں حاصل ہوتی ہے، پھر اس کی ۲؍ قسمیں ہیں؛ ایک : ولایت اجبار اور دوسری: ولایت ندب ،نیز دوسرے پر ولایت بعض صورتوں میں نفس میں ہوتی ہے (کہ وہ اُس کا نکاح کرسکتا ہے ) اور بعض صورتوں میںمال میں (کہ وہ اُس کے مال میں اُس کے لیے جائز تصرف کرسکتا ہے)، اور بعض صورتوں میں نفس اور مال دونوں میں ہوتی، جس کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے، سوال میں مذکور تینوں سوالات اہم ہیں، مناسب ہوگا کہ سوالات کے واضح جوابات کے لیے حسب ذیل چند باتوں کی وضاحت کی جائے:

    الف، ب: پہلے سوال میں بالغہ لڑکی کے لیے اپنی زندگی سے متعلق ولی کی مرضی کی خلاف دیگر فیصلوں سے کیا مراد ہے؟ اور اُن فیصلوں میں ولی کی مرضی کو نظر انداز کرنے کی ضرورت کیا ہے؟واضح کریں۔

    ج - ط: باپ، دادا، نانا ، چچا اور بھائی یہ سب کس کے حق میں ظالم ہیں؟ اور اُن کے ظلم کی تفصیل کیا ہے؟ کہیں تو ایسا نہیں ہے کہ عورت اپنے فہم میں اپنے اوپر ظالمہ ہو؟ نیز جس مرد کو وہ اپنا سرپرست بنانا چاہتی ہے، وہ اُس کا کیا ہے؟کیا عورت کے لیے اپنے ذاتی مسائل میں شرعی پردہ وحدود کی رعایت کے ساتھ اُس سے رابطہ ممکن ہوگا؟ اور اگر وہ حکومت کو اپنا سرپرست بنانا چاہتی ہے تو اس سلسلہ میں حکومت کا قانون وضابطہ کیا ہے؟ نیز حکومت سرپرستی کا کام کس طور پر انجام دے گی؟ سب باتیں تفصیل کے ساتھ لکھیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند