• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 68866

    عنوان: نکاح پر نکاح ایک ہی انسان سے جائز ہے؟

    سوال: میں اور میرے شوہر نے اپنی فیملی سے چھپ کر نکاح کیا پر انہوں نے مجھے ۹/ دن بعد طلاق دی تین بار بول کر (میں نے تمہیں طلاق دی، میں نے تمہیں طلاق دی، میں نے تمہیں طلاق دی)، اس کے بعد کسی نے کہا کہ اس طرح ایک ساتھ تین بولنے پر ایک بار ہی طلاق ہوتی ہے، نئے فتویٰ کے مطابق اور اگر اس کے بعد تین مہینے میں میاں بیوی رجوع کرلیں تو نکاح قائم رہتا ہے، اس لیے ہم نے کسی کو بنا بتائے رجوع کرلیا، کیونکہ نکاح کا بھی کسی کو نہیں پتا تھا، اس کے بعد ہم نے جب رخصتی کا ارادہ کیا اور اپنے گھر والوں کو شادی کے لیے راضی کرلیا تو میں نے اس وجہ سے کہ کہیں یہ بات سن کر گھر والے پھر سے ارادہ نہ بدل دیں اور ناراض نہ ہوجائیں، اپنے شوہر کو راضی کرلیا دوبارہ نکاح کرنے کے لیے سب کے سامنے، اس طرح ہمارا دوبارہ نکاح ہو گیا میرے گھر والوں کی موجودگی میں، پھر رخصتی ہوگئی، رخصتی کے تین مہینے میں ہی لڑائی جھگڑے میں میرے شوہر نے دو بار وہی لفظ کہا(میں طلاق دیتا ہوں، میں طلاق دیتا ہوں ) اور میرے سب کو بتانے پر وہ مُکر گئے اور قرآن کی قسم کھالی (کہا، میں نے تو یہ کہا تھا کہ دے دوں گا) ان کی اتنی بار قسم کے بعد مجھے لگا شاید میرے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہو، اس کے بعد میرے سُسر نے بھی مجھے سمجھایا کہ اگر کہا بھی ہے تو تین مہینے میں رجوع کرنے سے نکاح قائم نہیں رہتا، اس کے بعد بھی ہم ساتھ رہے، پر میں ان باتوں کے بارے میں سوچتی رہتی ہوں اور کافی پریشان ہوں، میری شرعی طور پر رہنمائی کریں اور میرے نیچے دئیے گئے سوالوں کا جواب ضرور دیں؛ (۱) میں نے اسی انسان سے دوبارہ نکاح کیا تو میرا کونسا نکاح جائز ہے؟ (۲) کیا اس طرح طلاق دینے پر ابھی بھی نکاح قائم ہے یا ٹوٹ گیا ہے؟ (۳) اور اگر دوبارہ نکاح ہوا ہی نہںا ہے تو میری کتنی طلاقیں ہو چکی ہیں؟ (۴) اور اب میرے لیے اللہ سے توبہ کرنے کے علاوہ دین کی روشنی میں کیا حکم ہے؟ (۵) اور اگر میری طلاق ہو چکی ہے تو اس بات کو قریب ایک سال ہو گیا ہے کیا مجھ پر عدت فرض ہو گئی اب؟

    جواب نمبر: 68866

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 1071-1208/SN=1/1438

    (۱ تا ۴) ابتداءً آپ دونوں نے جب نکاح کیا تھا اگر اس کے بعد طلاق کا واقعہ پیش آنے سے پہلے آپ دونوں کے درمیان ہمبستری یا کسی کمرے میں تنہائی و یکجائی یعنی خلوت صحیحہ ہو گئی تھی تو ۹/ دن کے بعد آپ کے شوہر نے جو تین طلاق دی تھی وہ تینوں طلاقیں واقع ہوگئی تھیں اور آپ اپنے شوہر پر بالکلیہ حرام ہو گئی تھیں، رجعت کی قطعاً گنجائش نہ تھی، یہی جمہور محدثین، فقہاء اور چاروں ائمہ: امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک اور امام احمد بن حنبل  رحمہم اللہ کا مسلک ہے، جن لوگوں نے ایک طلاق ہونے کی بات بتلائی وہ قرآنِ کریم، احادیثِ شریفہ نیز جمہورِ امت کے قطعاً خلاف ہے، وہ کسی بھی اعتبار سے صحیح اور قابلِ عمل نہیں ہے، آپ دونوں نے اس پر اعتماد کرتے ہوئے جو رجعت کی وہ ایک ناجائز کام ہوا، اس سے توبہ و استغفار کریں، اس کے بعد آپ دونوں نے جو نکاح کیا وہ شرعاً کالعدم ہے، اسی طرح بعد میں جو طلاق دی گئی وہ بھی فضول ہے؛ اس لیے کہ آپ تو اپنے شوہر پر حرمت غلیظہ کے ساتھ حرام ہو چکی تھیں، نہ اس کی طرف سے نکاح کی محل تھیں، نہ طلاق کی، بہرحال اب تک جو ہوا بہت غلط اور گناہِ عظیم ہوا، آپ اپنے شوہر سے فوراً علیحدگی اختیار کرلیں اور ان سے کہہ دیں میرا تمہارے ساتھ رہنا قطعاً جائز نہیں ہے او رنہ بلا حلالہٴ شرعیہ ہم دونوں کا آپس میں نکاح ہو سکتا ہے؛ اس لیے میں علیحدہ ہوتی ہوں۔
    (۵) جب آپ کے شوہر نے ابتداءً تین طلاق دی تھی، اصولاً تو عدت اسی وقت شروع ہوگئی تھی او رتین ماہواری گزرنے کے بعد وہ پوری بھی ہوگئی تھی، تین طلاق کے بعد رجوع پھر طلاق پھر رجوع یہ سب عدت پوری ہونے میں مانع نہ بنے گا؛ لیکن اگر یہ بات سچ ہے کہ آپ دونوں نے تین طلاق کے ایک ہونے کے فتوی کو صحیح سمجھتے ہوئے (نفسانی خواہش سے مغلوب ہوکر نہیں) اور رجعت کو جائز سمجھ کر رجعت کی تھی تو اب تک آپ دونوں نے جو ہمبستریاں کی ہیں وہ حکماً وطی ”بالشبہ“ کے درجے میں ہوں گی؛ لہٰذا علیحدگی اختیار کرکے آپ ازسرنو عدت گزاریں، پھر دوسری جگہ نکاح کا اقدام کریں۔ وإذا وطئت المعتدّة بشبہة ولو من المطلق وجبت عدة أخری لتجدد السبب وتداخلتا والمرئي من الحیض منہما علیہا أن تتمّ العدة الثانیة إن تمت الأولی (درمختار) وقال الشامي: قولہ بشبہة متعلق بقولہ ”وطئت“ وذلک کالموطوئة للزوج في العدة بعد الثلاث بنکاح وکذا بدونہ إذا قال: ظننت أنہا تحلّ لي الخ (درمختار مع الشامی: ۵/۲۰۰، باب العدة، ط: زکریا)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند