عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 168607
جواب نمبر: 168607
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 651-595/H=06/1440
اللہ پاک قادر مطلق ہے یعنی اصالةً تو تمام قدرت اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہے انسان و دیگر مخلوقات کو قدرت و اختیارات اللہ تعالی ہی نے عطاء کیا ہے اُسی عطاء کردہ قوت و اختیار سے انسان کھاتا پیتا چلتا پھرتا ہے اور ہر کام انجام دیتا ہے انسانوں کی آزمائش کے لئے گناہوں کے ارتکاب کرنے کی قدرت بھی عطاء کردی گئی ہے قرآن پاک میں ہے وَنَبْلُوکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَةً وَإِلَیْنَا تُرْجَعُونَ․ (سورة الانبیاء ، پ: ۱۷) کوئی انسان سود کھاتا شراب پیتا ظلم کرتا حق تلفی کرتا ہے تو اس میں اللہ پاک کی مرضی شامل نہیں ہوتی اور نہ ہی انسان گناہ کے کرنے میں مجبور ہوتا ہے، اس لئے کہ اللہ و رسول نے تو گناہ کرنے والوں سے اپنی ناراضگی کا صاف صاف اعلان کردیا ہے بلکہ گناہوں سے بچانے کی خاطر بے شمار ہدایات جاری کردی ہیں اللہ تعالی کی دی ہوئی طاقت و قدرت کا استعمال آدمی اچھے کاموں میں بھی کرتا ہے اور اس پر اجر وثواب کا مستحق ہوتا ہے اور یہی اللہ و رسول کی مرضی کے عین مطابق ہے اور گناہوں میں بھی کرلیتا ہے جو سراسر اللہ و رسول کی ناراضگی کا موجب ہے، اِس کی مثال اِس طرح سمجھ لیں کہ جیسے تمام اختیارات اصالةً تو حکومت کو حاصل ہوتے ہیں مگر ملکی انتظام کو چلانے کے لئے ماتحت حاکموں کو اختیارات سرکار تقسیم کردیتی ہے اس کے بعد جو حکام حکومت کی مرضی کے مطابق عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کی طرف سے ملی ہوئی طاقت و قدرت کا استعمال کرتے ہیں حکومت ان سے راضی ہوتی ہے ان کو تنخواہ ہی نہیں انعامات و ترقیات سے بھی نوازا جاتا ہے اور جو حاکم وحکومت کے دیئے ہوئے اختیارات اور طاقت کا استعمال غلط کرتا ہے رعایا پر ظلم و ستم کرتا ہے حکومت اس سے ناراض ہوتی ہے وہ حاکم یہ نہیں کہہ سکتا کہ نہ حکومت ہمیں طاقت و اختیار دیتی نہ ہم ظلم و ستم کرتے لہٰذا اس ظلم و ستم کرنے میں ہمارا کچھ قصور نہیں بلکہ حکومت قصوروار ہے وہی ہم سے ظلم وگناہ کروا رہی ہے تو یہ عذر لنگ کسی عدالت بلکہ کسی بھی عاقل شخص کے سامنے نہ چلے گا بلکہ اس حاکم کا جرم مزید سنگین ہو جائے گا اور سخت سے سخت سزائیں اُس کو دی جائیں گی اللہ پاک فہم سلیم اور حلاوة ایمانی عطاء فرمائے آمین۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند