عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد
سوال نمبر: 606952
اسباب اختیار کرکے توکل کرنا چاہیے یا بغیر اسباب اختیار کیے؟
میری عمر 33 سال ہے الحمدللہ میں بچپن سے 5 وقت نماز پڑھ رہا ہوں اور یہ سب اللہ کے فضل سے ہے ۔ میری روز مرہ کی زندگی میں ایک بات ہمیشہ دل و دماغ میں چلتی ہے یہ زندگی عارضی ہے اور آخرت مستقل ہے ۔ اور اللہ کے لیے توکل کرتے رہو تم فلاح پاؤ گے ۔ اس قسم کی چیز اکثر ذہن اور دل میں آتی ہے ۔ میں دین اسلام الحمدللہ سے بہت وابستہ ہوں اور علماء دیوبند مجلس میں بیٹھا ہوں۔ برائے مہربانی مجھے بتائیں کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے ۔
جواب نمبر: 606952
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 53-37/B-Mulhaqa=03/1443
جو بات آپ کے ذہن میں گھومتی ہے وہ تو بلاشبہ درست ہے؛ البتہ توکل کے باب میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے عام امتی کو یہی تعلیم دی ہے کہ اسباب اختیار کرو پھر توکل کرو۔ چنانچہ ایک حدیث میں یہ مضمون آیا ہے کہ ایک صحابی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! میں اونٹ کو باندھوں اور اللہ پر توکل کروں یا اسے چھوڑدوں اور اللہ پر توکل کروں تو اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إعقلہا وتوکل یعنی اسے باندھو اور اللہ پر توکل کرو (ترمذی، رقم: 2527)۔ اس لئے آپ کو چاہئے کہ شریعت کے دائرے میں رہ کر معاش وغیرہ کے لیے ضروری وسائل اختیار کریں اور اس میں بھی جدوجہد کریں، اس سے وساوس و تفکرات بھی کم ہوں گے اور اطمینان کی زندگی بھی نصیب ہوگی ان شاء اللہ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند