• معاملات >> سود و انشورنس

    سوال نمبر: 56678

    عنوان: کیا حلال طریقے سے قسطوں پربائک خریدنے کے لیے کوئی دوسراطریقہ ہے؟

    سوال: میں جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی ، میں آرٹیکچر کورس کے بی اے کے آخری سال میں ہوں۔میں یہ جاننا چاہتاہوں کہ دسمبر کے بعد آفس جوائن کرنے کی وجہ سے مجھے ایک بائک کی ضرورت پڑے گی۔ میرا شبہ یہ ہے کہ بائک خریدنے کے لیے میرے پاس صرف 30000 روپئے ہیں جو ناکافی ہیں، میں شوروم سے ماہانہ قسطوں پر بایک خرید نا چارہا ہوں ، مگر متعین قسطوں کے ساتھ سود بھی دینا ہوگا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا حلال طریقے سے قسطوں پربائک خریدنے کے لیے کوئی دوسراطریقہ ہے؟براہ کرم، جواب دیں۔

    جواب نمبر: 56678

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 115-115/Sd=3/1436-U شو روم سے بائک وغیرہ خریدنے کی اس وقت بہت سی شکلیں رائج ہیں، اکثر شوروم میں قسطوں پر معاملہ بینک کے توسط سے کیا جاتا ہے، جس میں بینک گاڑی خریدنے والے کے نام لون جاری کرتا ہے پھر اضافے کے ساتھ مقررہ قسطوں کی شکل میں اپنا قرضہ وصول کرلیتا ہے، وقتِ مقررہ پر کسی قسط کی عدم ادائیگی کی صورت میں قرض کی رقم میں اضافہ ہوتا رہتا ہے؛ یہ شکل سود کی وجہ سے ناجائز ہے، جس شوروم میں اس طرح خرید وفروخت کا معاملہ کیا جاتا ہو، اس سے بائک وغیرہ خریدنا شرعا ناجائز ہے، اور جس شوروم کا بینک سے مذکورہ تعلق نہیں رہتا، وہ براہ راست خریدار کو گاڑی وغیرہ فروخت کرتا ہے، اگر وہ آپ سے اس طرح معاملہ کرلے کہ عقد کے وقت گاڑی کی مجموعی قیمت متعین ہوجائے چاہے وہ قیمت نقد کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی کیوں نہ ہو اور پھرقیمت کی وصولیابی کے لیے قسطیں مقرر کرلی جائیں، ہرقسط کی مقدار اور اس کی ادائیگی کی تاریخ بھی طے ہوجائے اور اس معاملے میں وقت مقررہ پر کسی قسط کی عدم ادائیگی یا کمی کی صورت میں اصل قیمت میں اضافے کی کوئی شرط نہ ہو، تو اس طرح معاملہ کرنا شرعاً درست ہوا، جس شو روم میں اس طرح خرید وفروخت کا معاملہ ہوتا ہو، آپ اس سے مذکورہ طریقے پر قسطوں کی شکل میں بائک خرید سکتے ہیں۔ فتاوی عثمانی میں ہے: ”قسطوں پر معاملہ کرنا اس شرط سے جائز ہے کہ جس وقت مکان وغیرہ کی خریداری عمل میں آئی، اُسی وقت قیمت اور قسطیں کسی اِبہام کے بغیر طے ہوجائیں اور پھر قیمت اس طرح طے ہوئی ہے، خریدار سے ہرحال میں اس کا مطالبہ ہو، ادائیگی میں تاخیرکی وجہ سے اس پر کوئی اضافہ نہ کیا جائے۔ (فتاوی عثمانی: ۳/۱۱۷، زکریا، دیوبند) وفي المجلة، رقم المادة: ۲۲۵: البیعُ مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح، وفي قضایا فقہیة معاصرة: أما الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع الموٴجل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع موٴجل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد (ص:۷) قال الإمام الترمذي: وقد فَسَّر بعض أہل العلم قالوا بیعتین في بیعة أن یقول: أبیعُک ہذا الثوب بنقد بعشرة وبنسیئة بعشرین، ولا یفارقہ علی أحد البیعتین فإذا فارقہ علی أحدہما، فلا بأس إذا کانت العقدة علی أحد منہما․ (الترمذي، بابُ ما جاء في النہي عن بیعتین في بیعة، رقم: ۶۲۳۱) وقال السرخسي: وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا وبالنقد بکذا، فہو فاسد،وہذا إذا افترقا علی ہذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا، حتی قاطَعہ علی ثمن معلوم، وأتما العقد علیہ؛ جاز (المبسوط للسرخسي: ۱۳/۸، ط: دار المعرفة، بیروت، وکذا في مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر: ۲/۷۸)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند