عقائد و ایمانیات >> بدعات و رسوم
سوال نمبر: 61742
جواب نمبر: 61742
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 7-7/Sd=1/1437-U مروجہ میلاد کی مجلس قائم کرنابدعت ہے، شریعت سے اس کا کوئی ثبوت نہیں، دور نبوی، دور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کے زمانے میں اس کا کوئی وجود نہیں تھا اور نہ اِن حضرات سے اِس بارے میں جواز کی کوئی روایت منقول ہے اور درود شریف کا پڑھنا فی نفسہ موجب ثواب اور باعث برکت ہے، لیکن اسے ایک خاص کیفیت اور انداز کے ساتھ پڑھنے کو لازم و ضروری سمجھنا ممنوع ہے، مجلس میں اجتماعی طور پر آواز میں آواز ملاکر درود پڑھناشریعت سے ثابت نہیں، یہ اہل بدعت کا شعار ہے، اس طرح درود پڑھنے سے احتراز ضروری ہے، اس سلسلے میں پہلے بھی بہت سے فتوے جاری کیے جاچکے ہیں، دار الافتاء/ دار العلوم دیوبند کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہونگے، ملاحظہ فرمالیں۔ عن عائشة رضي اللّٰہ عنہا قالت قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ، فہو رد (صحیح البخاري، کتاب الصلح، رقم: ۲۶۹۷) لا أعلم لہذا المولد أصلا في کتاب ولا سنة، ولا ینقل عملہ عن أحد من العلماء الأئمة الذین ہم القدوة في الدین المتمسکون بآثار المتقدمین؛ بل ہو بدعة أحدثہا البطالون، س اعتنی بھا الآکلون۔ (الجنة لأہل السنة، ص: ۲۰۱، بحوالہ: محمودیہ: ۵/ ۳۹۵، ط: زکریا)وقال الکشمیري: المولود الذي شاع في ہذا العصر۔۔۔۔۔۔ لم یکن لہ أصل من الشریعة الغراء۔۔۔ (العرف الشذي، ص ۲۳۱، أبواب العیدین، باب ماجاء في التکبیر)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند