• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 9853

    عنوان:

    مسئلہ یہ ہے کہ میرے والد مرحوم رمضان خان کے انتقال کو دس سال پورے ہوچکے ہیں۔ انھو ں نے اپنے پیچھے ایک بیوی دو بیٹے تین بیٹیاں چھوڑی ہیں۔اس کے علاوہ ایک مکان دو دکانیں دو فیکٹریاں اور ایک فلیٹ چھوڑا تھا۔ انتقال کے ایک سال کے بعد ہی ایک فیکٹری اور ایک فلیٹ اور دو تین گاڑیاں تھیں یہ سب اسباب بیچ دیا گیا ۔ فیکٹری 23 لاکھ کی اورفلیٹ تقریباً دیڑھ لاکھ کا بیچا گیا ،گاڑیوں کا پتہ نہیں کتنے میں بیچی گئی ہیں۔اوراس میں سے سبھی بچوں کو ڈھائی ڈھائی لاکھ دے دیا گیا۔ بیٹیاں اوربیٹے سبھی شادی شدہ ہیں۔ ایک فیکٹری جو کہ ڈی ڈی اے کی الاٹمنٹ ہے اور جس کی سالانہ لیز ڈیڈ تقریباً چار سو روپیہ سالانہ ہے وہ بھائیوں نے اپنے نام کرالی ۔یہ کہہ کر کہ فیکٹری دوسری جگہ منتقل ہورہی ہے اور اس کے لیے بیٹیوں کوکوئی پیسہ یا کوئی چیز نہیں دی گئی۔ اب باقی جائداد میں ایک مکان اور دو دکانیں رہ گئی ہیں۔ ماں اب یہ چاہتی ہے کہ بیٹیاں اب اس میں سے کچھ نہ لیں اور ساری جائداد ونوں بھائیوں کے نام کردیں ۔ کیا انھیں بیٹوں کا حق ختم کرنے کا اختیار ہے؟ مکان میں والد،والدہ اور ایک بیٹے کا نام ہے۔ حالانکہ .......

    سوال:

    مسئلہ یہ ہے کہ میرے والد مرحوم رمضان خان کے انتقال کو دس سال پورے ہوچکے ہیں۔ انھو ں نے اپنے پیچھے ایک بیوی دو بیٹے تین بیٹیاں چھوڑی ہیں۔اس کے علاوہ ایک مکان دو دکانیں دو فیکٹریاں اور ایک فلیٹ چھوڑا تھا۔ انتقال کے ایک سال کے بعد ہی ایک فیکٹری اور ایک فلیٹ اور دو تین گاڑیاں تھیں یہ سب اسباب بیچ دیا گیا ۔ فیکٹری 23 لاکھ کی اورفلیٹ تقریباً دیڑھ لاکھ کا بیچا گیا ،گاڑیوں کا پتہ نہیں کتنے میں بیچی گئی ہیں۔اوراس میں سے سبھی بچوں کو ڈھائی ڈھائی لاکھ دے دیا گیا۔ بیٹیاں اوربیٹے سبھی شادی شدہ ہیں۔ ایک فیکٹری جو کہ ڈی ڈی اے کی الاٹمنٹ ہے اور جس کی سالانہ لیز ڈیڈ تقریباً چار سو روپیہ سالانہ ہے وہ بھائیوں نے اپنے نام کرالی ۔یہ کہہ کر کہ فیکٹری دوسری جگہ منتقل ہورہی ہے اور اس کے لیے بیٹیوں کوکوئی پیسہ یا کوئی چیز نہیں دی گئی۔ اب باقی جائداد میں ایک مکان اور دو دکانیں رہ گئی ہیں۔ ماں اب یہ چاہتی ہے کہ بیٹیاں اب اس میں سے کچھ نہ لیں اور ساری جائداد ونوں بھائیوں کے نام کردیں ۔ کیا انھیں بیٹوں کا حق ختم کرنے کا اختیار ہے؟ مکان میں والد،والدہ اور ایک بیٹے کا نام ہے۔ حالانکہ جب مکان لیا گیا تھاتب بیٹا بالغ نہیں تھا اور والدہ نے کبھی کوئی کام نہیں کیا۔ ایک دکان پوری والدہ کے نام پر ہے وہ جس کی وصیت بیٹوں کے حق میں کر چکی ہیں ۔ کیا قرآن اور حدیث کی روسے انھیں یہ وصیت کرنے کا حق ہے؟انتقال کے فوراً بعد ماں کے اوربھائیوں کے برتاؤ میں فرق آنے لگا ۔ حالات یہ ہوچکے کہ بیٹیاں اگر باپ کے گھر جائیں تو یہ بات ہوتی ہے کہ اپنا حق چھوڑو اور سب کچھ بھائیوں کے نام کردو اگر لڑکیاں اپنیحق کی بات کرلیں تو ماں بیٹیوں کو بھائیوں کا دشمن بتاتی ہے کہ اب آپ کے مال میں سے لڑکیوں کے لیے اپنا حق مانگنا گناہ ہے ۔ ماموں اورخالو سے بات کری یہ سوچ کر کہ خاندانی معاملات ہیں یہ لوگ زیادہ بہتر طریقہ سے سلجھا دیں گے تو ان کا جواب تھا کہ جو کچھ ان کے بہنوئی چھوڑ کر گئے اس پر صرف ان کی بہن کا حق ہے وہ جس کو چاہیں دیں اور جس کو چاہیں نہ دیں اور کہا کہ جو چیز جس کے نام پر ہیں اسی کے نام پر رہیں گی۔ لڑکیوں کو اس میں سے کچھ نہیں ملے گا اگر ان حالات میں لڑکیوں کے ماں اور بھائیوں سے تعلقات ختم ہو جاتے ہیں تو کیا قیامت کے روز ہم قرابت داری کے زمان میں تو نہیں پکڑے جائیں گے؟ برائے مہربانی قرآن اور صحیح حدیث کی روشنی میں سارے معاملات تفصیل سے بیان کریں اور دین کی روشنی میں ہماری رہنمائی کریں؟

    جواب نمبر: 9853

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1700=1403/ ل

     

    صورت مسئولہ میں آپ کے والد کے ترکہ سے جو چیزیں فروخت کردی گئیں، ان کی قیمت کی تقسیم حسب شرع اس طرح کی جائے گی کہ بعد ادائے حقوق مقدمہ علی المیراث 8 حصوں میں منقسم ہوکر ۱ یک حصہ مرحوم کی زوجہ کو دو دو حصے مرحوم کے دونوں لڑکوں کو اورایک ایک حصہ مرحوم کی تینوں بیٹیوں میں سے ہرایک کو ملے گا۔

    اسی طرح جو فیکٹری لڑکوں نے اپنے نام کرالی اس میں بھی بہنوں کا اسی حساب سے حصہ ہوگا جس کی تخریج پہلے کردی گئی ہے۔ اسی طرح باقی جائیداد مثلاً مکان اور دوکانوں میں لرکیوں کا حصہ ہوگا، ماں کو لڑکیوں کے حق کو ساقط کرنے کا اختیار نہیں ہے، جو دوکان والدہ کے نام پرہے، اگر آپ کے والد نے وہ دوکان آپ کی والدہ کے دے کر مالک وقابض بنادیا تھا تو وہ اس دوکان کی مالک ہوگئیں، البتہ اس دوکان کی وصیت بیٹوں کے نام کرنا کالعدم ہے کیوں کہ وارث کے حق میں وصیت کا نفاذ نہیں ہوتا۔ اگر آپ تینوں بہنیں اپنی والدہ کی وفات کے وقت حیات رہتی ہیں تو آپ تینوں بہنیں بھی اپنی والدہ کے ترکہ کی حق دار ہوں گی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند