• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 168198

    عنوان: ایك بیوی‏، تین بیٹے اور تین بیٹیوں كے درمیان وراثت كی تقسیم

    سوال: (۱) ایک بیوی، تین بہن اور تین بھائی ہیں جن کی والدہ حیات ہیں اور والد کا انتقال ہوچکاہے، تقریباً چار سے پانچ سال عرصہ گذر چکاہے، اب ان سب کے والد نے جو وارثت چھوڑی ہے اس میں ان کے دو مکانات ہیں 120گز کا ، ایک مکان کرایہ پردیا ہواہے، اور ایک میں سات دکانیں ہیں جو کہ کرایہ پر ہیں اور اس میں بھائیوں کی رہائش ہے، والد کے انتقال سے اب تک بھائیوں نے کرایہ کے پیسوں سے ایک روپیہ بھی بہنوں کو نہیں دیاہے، کیا یہ کرایہ پیسوں میں بہنوں کا حق ہے؟ یا نہیں؟ (۲) ان دونوں مکانوں کی قیمت جو ہے اس میں سے بہنوں اور بھائیوں اور ماں کا حصہ کس طرح سے تقسیم ہوگا، اس کا طریقہ کیا ہے؟

    جواب نمبر: 168198

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:546-563/L=6/1440

    صورتِ مسئولہ میں مرحوم کی وفات کے وقت ان کے والدین دادا ،دادی ،نانی میں سے کوئی حیات نہ رہا ہو تو مرحوم کا تمام ترکہ بعد ادائے حقوقِ مقدمہ علی المیراث 72حصوں میں منقسم ہوکر9حصے مرحوم کی اہلیہ کو ،14-14حصے تینوں لڑکوں میں سے ہر ایک کو اور 7-7حصے تینوں لڑکیوں میں سے ہرایک کو ملیں گے۔ دوکانوں سے حاصل کرایہ بھی تمام ورثاء کے درمیان ان کے حصص کے اعتبار سے تقسیم ہوگا ،بھائیوں کا کرایہ کی رقم رکھ لینا اور بہنوں کو نہ دینا درست نہیں ،ایسا کرنا گویا ان کے پیسوں کو ناحق لینا ہے جو شرعاً حرام ہے ،بھائیوں کو چاہیے کہ اب تک بہنوں یا ماں کا جتنا حق کرایے میں ہوا ہے اس کا حساب لگاکر بہنوں اور والدہ کوادا کردیں اورآئندہ سے ماہ بماہ ان کو ان کا حصہ دیتے رہیں،جہاں تک مکانوں کی تقسیم کا مسئلہ ہے تو اگر دونوں مکانوں کی تقسیم اوپر مذکور حصص کے اعتبار سے ورثاء کے درمیان ہوسکتی ہو تو اسی طرح مکانوں کو تقسیم کرلیا جائے اور اگر مکان تنگ ہو اور جملہ ورثاء کے درمیان تقسیم کرنا دشوار ہو تو اس کی یہ صورت کی جاسکتی ہے کہ بوقتِ تقسیم مکان کی قیمت کا اندازہ لگالیا جائے اور جو وارث اپنے حصے کے بقدر رقم لے کر الگ ہونا چاہے اس کو اس کے حصے کی رقم دے کر الگ کردیا جائے ۔

    مسئلے کی تخریج شرعی درج ذیل ہے :

    بیوی = 9

    لڑکا = 14

    لڑکا = 14

    لڑکا = 14

    لڑکی = 7

    لڑکی = 7

    لڑکی = 7

    نوٹ: اگر ورثاء مکان بیچ کر قیمت تقسیم کرنا چاہیں تو جب مکان فروخت ہوجائے اور پیسے آجائیں اس وقت رقم کی صراحت کرکے دوبارہ استفتاء ارسال کیا جائے پھر ان شا ء اللہ رقم کی تقسیم حسب حصص شرعیہ کردی جائے گی ۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند