عنوان: دادا کا اپنی زندگی میں زمین تقسیم کردینا ہبہ ہے
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مذکورہ بالا مسئلہ میں، میرے دادا کے تین لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں میرے والد بڑے بیٹے تھے اور دادا کی زندگی میں ہی میرے والد محترم کا انتقال ہو گیا تھا۔ ہم تین بھائی اور دو بہن ہیں۔ میرے والد کا انتقال م2005 میں ہوا اس کے کچھ عرصہ بعد م2006 میں دادا نے اپنی جائداد (زمین )اپنے دو لڑکوں اور ہم تین بھائیوں (پوتوں) اور ہماری والدہ صاحبہ(بہو) میں تقسیم فرمائیں نیز سب کو اسی وقت قبضہ بھی دیدیا تھا ہم تین بھائی اور والدہ کے حصہ میں 101 گز زمین آئے اور اس زمین پر دادا کی حیات میں ہی اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ہم بھائی اپنے اخرجات سے گراونڈ +2 فلور تعمیر کرچکے تھے ، نیچے کے حصہ میں ایک بڑی دکان ہے جو کہ دادا کے حکم اور ہم بھائیوں (بلکہ پورے خاندان ) کے باہمی اتفاق سے ہماری والدہ صاحبہ کے حصہ میں آئی ہے اور دادا نے کہا تھا کہ جب تک وہ اور دادی زندہ رہیں گے آدھا کرایہ میری والدہ لیں گی اور آدھا کرایہ وہ خود لیں گے، اور دادا و دادی دونوں کی وفات کے بعد پورا کرایہ والدہ کا ہوگا اسی طرح اوپر پہلی منزل بڑے بھائی، دوسری منزل دوسرے بھائی کے، اور تیسری منزل تیسری بھائی کے حصہ میں آئی ہے۔ دادا کی حیات میں ہی دو بڑے بھائی پہلی اور دوسری منزل پر اپنے گھر تعمیر کرچکے تھے اور فی الحال تیسری منزل پر چھوٹا بھائی اپنا گھر تعمیر کر رہا ہے ۔ ہماری دو بہنیں ہیں اور دادا نے زمین میں ان کے حصہ کے متعلق کوئی بات بھی نہیں فرمائی ہے اور تقریبا دو سال پہلے (2017) میں دادا کا انتقال ہو گیا ہے (غفر اللہ لہ و لجمیع المسلمین ) ا : چونکہ دادا نے ہماری دو بہنوں( اپنی پوتیوں) کے اس زمین میں حصہ کے متعلق کچھ نہیں فرمایا ہے تو کیا اس زمین میں ہماری بہنوں (پوتیوں) کا بھی حصہ رہے گا یا نہیں ؟ ب : ہمارے دادا نے اپنی زندگی میں ہی اپنی جائیداد کی تقسیم کی ہے کیا اسکو ہبة کہنا صحیح ہے ؟ براے کرم رہنمائی فرمائیں ۔ نفع اللہ بکم الإسلام و المسلمین
جواب نمبر: 17400731-Aug-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:215-43T/L=3/1441
صورتِ مسئولہ میں آپ کے دادا کا اپنی زندگی میں زمین تقسیم کردینا ہبہ کے قبیل سے ہے ،اگر آپ کے دادا نے آپ تین بھائیوں اور ماں کو الگ الگ حصہ دیا تھاتب تو قبضہ سے ہبہ تام ہوگیا اور اگر مشترکہ طور پر سب کو ہبہ کیا تھا لیکن وہ زمین اتنی کم تھی کہ ہر ایک کو الگ لگ حصہ کرکے دینے سے اس زمین سے فائدہ اٹھانے میں دشواری پیش آتی تو اس صورت میں بھی قبضہ کے بعد ہبہ تام اور لازم ہوگیا اور وہ جائیداددادا کی ملکیت سے نکل کر آپ لوگوں کی ملک میں داخل ہوگئی اور چونکہ آپ کے دادا نے آپ کی بہنوں کو کچھ نہیں دیا ؛اس لیے اس زمین میں آپ کی بہنوں کا کوئی حصہ نہ ہوگا ۔
قال فی مجمع الأنہر (وتصح ہبة مشاع لا یحتمل القسمة) أی لیس من شأنہ أن یقسم بمعنی لا یبقی منتفعا بہ بعد القسمة أصلا کعبد ودابة ولا یبقی منتفعا بہ بعد القسمة من جنس الانتفاع الذی کان قبل القسمة کالبیت الصغیر والحمام (لا) أی لا تصح ہبة (ما) أی مشاع (یحتملہا) أی القسمة علی وجہ ینتفع بہ بعد القسمة کما قبلہا(مجمع الأنہر فی شرح ملتقی الأبحر 2/ 356،الناشر: دار إحیاء التراث العربی) وفی المحیط البرہانی :کل ما یوجب قسمتہ نقصانا، فإنہ مما لا یحتمل القسمة وإذا لم یوجب نقصانا فہو مما یحتمل القسمة، فعلی ہذا یقول: إن کان الدرہم الواحد ینتقص بالقسمة یجوز ہبة نصفہ، وإن کان لا ینتقص لا یجوز ہبة نصفہ(المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی 6/ 240،الناشر: دار الکتب العلمیة، بیروت - لبنان)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند