• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 42923

    عنوان: وصیت

    سوال: مجھے آپ سے یہ مسئلہ معلوم کرنا ہے کہ میری خالہ کا انتقال ۲۰۱۰ میں ہوگیا تھا اور اب ۲۰۱۲ میں میرے خالو کا بھی انتقال ہو گیا ہے ، خالو کے ۲ بیٹے اور ۲ بیٹیاں ہیں، میرے خالو یہ کہا کرتے تھے کہ گھر میرے دونوبیٹوں کا ہے، اور اس گھر کے علاوہ میرا جو بھی کچھ میرا باہر کا ہے وہ میرے چاروں بیٹا بیٹی کا ہے ، اب مسئلہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ مرنے والے کی وصیت نہیں مانی جاتی، آپ اس مسئلہ پر روشنی ڈالیں کہ گھر اور باہر کی جائداد میں کون کون اولاد شریک ہیں؟۱- کیا مرنے والے کی وصیت نہیں مانی جاتی ؟۲- کیا گھر میں دونوں بیٹے حقدار ہیں یابیٹیاں نہیں ؟ ۳- اور اس جائیداد کو کس طرح ان چاروں میں تقسیم کیا جایگا ؟

    جواب نمبر: 42923

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 15-17/N=2/1434 (۱) جی ہاں! یہ بات صحیح ہے کہ وارث کے حق میں وصیت باطل وغیرمعتبر ہوتی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے خطبہ میں فرمایا تھا: إن اللہ أعطی کل ذي حق حقہ فلا وصیة لوارث (مشکاة شریف: ۲۶۵) (۲) گھر اور باہر کی جائداد دونوں بلکہ تمام ترکہ میں بیٹوں کی طرح بیٹیوں کا بھی حق ہے، ترکہ کی کوئی بھی چیز صرف بیٹوں کے ساتھ مخصوص نہیں قال اللہ تعالی: ”لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْاَقْرَبُوْنَ وَلِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْ کَثُرَ نَصِیْبًا مَفْرُوْضًا“ (سورہٴ نسا،آیت:۷) (۳) صورت مسئول عنہا میں سارا ترکہ حقوق متقدمہ علی الارث کی ادائیگی کے بعد 6 حصوں میں تقسیم ہوگا جن میں سے 2-2 حصے ہربیٹے کو اور ایک ایک حصہ ہربیٹی کو ملے گا، لیکن شرط ہے کہ آپ کے خالو کے انتقال کے وقت ان کے والدین اور دادا، دادی میں سے کوئی بھی باحیات نہ ہو ورنہ تقسیم بدل جائے گی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند