معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 42923
جواب نمبر: 42923
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 15-17/N=2/1434 (۱) جی ہاں! یہ بات صحیح ہے کہ وارث کے حق میں وصیت باطل وغیرمعتبر ہوتی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے خطبہ میں فرمایا تھا: إن اللہ أعطی کل ذي حق حقہ فلا وصیة لوارث (مشکاة شریف: ۲۶۵) (۲) گھر اور باہر کی جائداد دونوں بلکہ تمام ترکہ میں بیٹوں کی طرح بیٹیوں کا بھی حق ہے، ترکہ کی کوئی بھی چیز صرف بیٹوں کے ساتھ مخصوص نہیں قال اللہ تعالی: ”لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْاَقْرَبُوْنَ وَلِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْ کَثُرَ نَصِیْبًا مَفْرُوْضًا“ (سورہٴ نسا،آیت:۷) (۳) صورت مسئول عنہا میں سارا ترکہ حقوق متقدمہ علی الارث کی ادائیگی کے بعد 6 حصوں میں تقسیم ہوگا جن میں سے 2-2 حصے ہربیٹے کو اور ایک ایک حصہ ہربیٹی کو ملے گا، لیکن شرط ہے کہ آپ کے خالو کے انتقال کے وقت ان کے والدین اور دادا، دادی میں سے کوئی بھی باحیات نہ ہو ورنہ تقسیم بدل جائے گی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند