• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 59272

    عنوان: میری والدہ محترمہ کے چار بیٹے ہیں، تین الگ رہتے ہیں، ایک ساتھ رہتا ہے ،والدہ کی ملکیت میں ایک گھر ہے جس میں وہ خود اور بیٹا ساتھ رہتا ہے اگر والدہ یہ چاہیں کہ اپنی حیات میں وہ گھر ساتھ رہنے والے بیٹے کے نام یا کسی بھی ایک بیٹے کے نام کر دیں تو کیا یہ درست ہوگا؟

    سوال: سوال نمبر ۱: میری والدہ محترمہ کے چار بیٹے ہیں، تین الگ رہتے ہیں، ایک ساتھ رہتا ہے ،والدہ کی ملکیت میں ایک گھر ہے جس میں وہ خود اور بیٹا ساتھ رہتا ہے اگر والدہ یہ چاہیں کہ اپنی حیات میں وہ گھر ساتھ رہنے والے بیٹے کے نام یا کسی بھی ایک بیٹے کے نام کر دیں تو کیا یہ درست ہوگا؟ نیز یہ بھی بتلا دیں کہ ایسا کرنے میں دوسرے بیٹوں کی حق تلفی یا گناہ کی تو کوئی بات نہیں؟ سوال نمبر ۲: قانونی طور پر تو گھر اسی بیٹے کے نام پر ہے جو ساتھ ہے ، کیا قانونی ملکیت کی وجہ سے شرعی ملکیت بھی ملتی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ملتی تو پھر اگر والدہ صاحبہ کسی ایک بیٹے کے نام کرنا چاہیں تو اسکی صورت کیا ہوگی؟ قران و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔ جزاک اللہ خیراً

    جواب نمبر: 59272

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 667-712/N=8/1436-U (۱) آپ کی والدہ کا چار بیٹوں میں سے صرف کسی ایک بیٹے کو اپنامکان ہبہ کرنا بظاہر دوسرے بیٹوں کے ساتھ ناانصافی ہے؛ کیوں کہ عام طور پر مکان معمولی مالیت کا نہیں ہوتا؛ بلکہ اس کی ایک بڑی مالیت ہوتی ہے اور چاروں میں بیٹے اولاد ہونے میں بر ابر ہیں، البتہ اگر صرف کسی ایک بیٹے کو مکان ہبہ کرنے کی کوئی خاص وجہ ہو اور تمام حالات کے مد نظر یہ صورت ناانصافی سے خارج ہو تو پوری تفصیل لکھ کر دوبارہ سوال کیا جائے۔ (۲) اگر والدہ نے مکان اس بیٹے کے نام صرف فرضی کارروائی کے طور پر کیا ہے، یعنی رجسٹری کاروائی سے پہلے چند لوگوں کے سامنے یہ وضاحت کردی ہے کہ ہم بیٹے کو یہ مکان ہبہ نہیں کررہے ہیں؛ بلکہ یونہی اس کے نام رجسٹری کرارہے ہیں یا خود بیٹے سے اس کی وضاحت کردی اور وہ اس کا اقرار کررہا ہے یا ہبہ تو کردیا لیکن مکان خالی کرکے بیٹے کو اس مکان پر پورا قبضہ ودخل نہیں دیا تو از روئے شرع یہ مکان اس بیٹے کا نہیں ہے یا ابھی نہیں ہوا؛ لہٰذا اس صورت حال میں اگر خدا نخواستہ والدہ کا انتقال ہوجاتا ہے تو یہ مکان ان کے ترکہ میں شامل ہوکر تمام وارثین کے درمیان حسب وراثت تقسیم ہوگا، اور اگر والدہ یہ مکان باقاعدہ کسی ایک بیٹے کو ہبہ کردیں اور مکان خالی کرکے بیٹے کو مکان پر مکمل طور پر قبضہ ودخل دیدیں تو البتہ یہ مکان اس بیٹے کا ہوجائے گا اور والدہ کے انتقال پر ان کے ترکہ میں شامل نہ ہوگا؛ لیکن ناانصافی کی صورت میں والدہ گنہ گار ہوں گی، و شرائط صحتہا فی الموہوب أن یکون مقبوضا غیر مشاع ممیزا غیر مشغول (درمختار مع الشامي: ۸: ۴۸۹ مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) وکما یکون للواہب الرجوع فیہا - أي: فی الہبة الفاسدة- یکون لوارثہ بعد موتہ لکونہا مستحقة الردّ (شامي: ۸: ۴۹۶) ”وتتم الہبة بالقبض الکامل ولو الموہوب شاغلاً لملک الواہب لا مشغولاً بہ، والأصل أن الموہوب إن مشغولاً بملک الواہب منع تمامہا وإن شاغلاً لا فلو وہب جرابًا فیہ طعام الواہب أو دارًا فیہا متاعہ․․․ وسلمہا کذلک لا تصح الخ“ (درمختار مع الشامي: ۸: ۴۹۳، ۴۹۴)، وعن النعمان بن بشیر أن أباہ أتی بہ إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم․․․․ وفي روایة أنہ قال: ”لا أشہد علی جور“ متفقہ علیہ (مشکاة شریف ص: ۲۶۱) ”وإنما التفضیل المکروہ ما یغلب علی الظن أنہ لیسوء الأولاد والآخرین“ (تکملہ فتح الملہم ۲: ۷۱ مطبوعہ دار إحیاء التراث العربي بیروت)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند