• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 29516

    عنوان: زید ایک پڑھا لکھا دیندار ہے اور زید کی اہلیہ عالمہ ہے۔ دونوں ایک ہی مدرسہ کے حصہ بنین اور بنات کے شعبہ کتب میں پڑھا رہے ہیں۔ قریباً آٹھ ماہ قبل ان کے مابین کچھ کشیدگی ہو گئی جس کی بنا پر زید کی اہلیہ زید کا گھر چھوڑ کر اپنی والدہ کے گھر چلی گئیں۔ گھر چھوڑتے وقت اہلیہ زید امید سے تھیں اور اب ان کے ایک بیٹا ہوا ہے۔ بیٹے کی پیدائش کے چند ہفتوں بعد زید کے برادران نسبتی نے ایک مقامی عالم دین کی موجودگی میں زید کو اپنی ہمشیرہ (اہلیہ زید) کی جانب سے چند شرائط پیش کیں کہ اگر زید ان کو مان لے تو ان کی صلح ہو جائے گی اور اہلیہ زید واپس زید کے ساتھ رہنے لگیں گی۔ ان کی تمام شرائط زید نے مان لی البتہ ایک شرط پر زید کو کچھ تحفظات ہیں۔ وہ شرط جیسا کہ پیش کی گئی کچھ یوں ہے۔ " جناب زید صاحب اپنی اہلیہ کیلیے اپنی والدہ اور بھائیوں کی رہائش سے الگ رہائش کا انتظام کریں۔" اس سے ان کی مراد کچھ یہ ہے کہ یا تو زید ایک الگ گھر کرایہ پر لے یا پھر موجودہ مکان، جس کی اوپری منزل میں زید اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا، کو کچھ اس طرح تقسیم کر دیا جائے کہ ان کے گھر کا داخلہ علیحدہ ہو جائے یا کم از کم سیڑھی پر ایک اوٹ بنا دی جائے تاکہ اہلیہ زید، ان کے بھائی یا والدہ جب گھر میں داخل ہوں تو زید کے بھائیوں ، بہنوں یا والدہ کی نظر نہ پڑے۔ زید کا کہنا ہے کہ ان کے والد کا انتقال ہو چکا ہے اور والدہ بیمار رہتی ہیں جن کی تیمار داری کی سعادت زیادہ تر زید ہی کے حصہ میں آئی ہے۔ زید کے دو بھائیوں میں سے ایک تو پہلے ہی نوکری کی وجہ سے کراچی میں رہتا ہے ۔ اب اگر وہ بھی گھر چھوڑ کر علیحدہ رہنے لگے گا تو اپنی والدہ کی صحیح طور پر خدمت و تیمار داری نہیں کر پائے گا۔مزید براں زید کی ماہانہ آمدنی اتنی نہیں کہ وہ کرایہ کا مکان لے کر علیحدہ سکونت اختیار کر سکے۔ ان وجوہات کی بنا پر زید نے اپنے برادران نسبتی سے کہا کہ وہ اپنے گھر کی اوپر والی منزل میں اپنی اہلیہ کے لیے علیحدہ رہائش کا انتظام کرے گا اس طرح کہ ان کی معیشت اپنے بھائیوں کی معیشت سے الگ ہو گی۔ لیکن مکان کی تقسیم یا سیڑھی پر کوئی اوٹ وغیرہ نہیں دی جائے گی کیونکہ زید کے گھر والے اور خود زید اس حق میں نہیں کہ مکان تقسیم ہو یا کوئی اوٹ وغیرہ دی جائے۔مگر اہلیہ زید اپنے تقاضے پر بضد ہیں اور صورت دیگر میں خلہ کے لیے کہا ہے۔ اس ضمن میں اہلیہ زید کے بھائی اپنی ہمشیرہ کی مکمل تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ اب آپ سے عرض ہے کہ اس معاملے میں ہماری رہنمائی فرما کر عندی مشکور اور عند اللہ ماجور ہوں اور یہ بتائیے کہ ؛ أ. کیا زید پر اپنی اہلیہ کی یہ شرط ماننا شرعاً یا دیانتاً لازم ہے؟ ب. کیا اہلیہ زید کو ایسے شرط پیش کرنے کا شرعی یا دینی حق حاصل ہے اس طرح کہ اگر زید اس شرط کو نہ مانے گا تو وہ گھر ہی نہ آئیں گی یا خلہ کا مطالبہ کریں گی؟ ج. اگر زید کی والدہ زید کو یہ حکم دیں کہ ، "تو(زید) نہ ہی الگ مکان لے گا ، نہ ہی یہ مکان تقسیم ہوگا اور نہ ہی کوئی اوٹ بنے گی بھلے تیری بیوی تجھ سے خلہ لے لے۔" تو زید کیا کرے؟ کیا اس حکم کو مان لے یا بیوی کی شرط قبول کرے؟

    سوال: زید ایک پڑھا لکھا دیندار ہے اور زید کی اہلیہ عالمہ ہے۔ دونوں ایک ہی مدرسہ کے حصہ بنین اور بنات کے شعبہ کتب میں پڑھا رہے ہیں۔ قریباً آٹھ ماہ قبل ان کے مابین کچھ کشیدگی ہو گئی جس کی بنا پر زید کی اہلیہ زید کا گھر چھوڑ کر اپنی والدہ کے گھر چلی گئیں۔ گھر چھوڑتے وقت اہلیہ زید امید سے تھیں اور اب ان کے ایک بیٹا ہوا ہے۔ بیٹے کی پیدائش کے چند ہفتوں بعد زید کے برادران نسبتی نے ایک مقامی عالم دین کی موجودگی میں زید کو اپنی ہمشیرہ (اہلیہ زید) کی جانب سے چند شرائط پیش کیں کہ اگر زید ان کو مان لے تو ان کی صلح ہو جائے گی اور اہلیہ زید واپس زید کے ساتھ رہنے لگیں گی۔ ان کی تمام شرائط زید نے مان لی البتہ ایک شرط پر زید کو کچھ تحفظات ہیں۔ وہ شرط جیسا کہ پیش کی گئی کچھ یوں ہے۔ " جناب زید صاحب اپنی اہلیہ کیلیے اپنی والدہ اور بھائیوں کی رہائش سے الگ رہائش کا انتظام کریں۔" اس سے ان کی مراد کچھ یہ ہے کہ یا تو زید ایک الگ گھر کرایہ پر لے یا پھر موجودہ مکان، جس کی اوپری منزل میں زید اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا، کو کچھ اس طرح تقسیم کر دیا جائے کہ ان کے گھر کا داخلہ علیحدہ ہو جائے یا کم از کم سیڑھی پر ایک اوٹ بنا دی جائے تاکہ اہلیہ زید، ان کے بھائی یا والدہ جب گھر میں داخل ہوں تو زید کے بھائیوں ، بہنوں یا والدہ کی نظر نہ پڑے۔ زید کا کہنا ہے کہ ان کے والد کا انتقال ہو چکا ہے اور والدہ بیمار رہتی ہیں جن کی تیمار داری کی سعادت زیادہ تر زید ہی کے حصہ میں آئی ہے۔ زید کے دو بھائیوں میں سے ایک تو پہلے ہی نوکری کی وجہ سے کراچی میں رہتا ہے ۔ اب اگر وہ بھی گھر چھوڑ کر علیحدہ رہنے لگے گا تو اپنی والدہ کی صحیح طور پر خدمت و تیمار داری نہیں کر پائے گا۔مزید براں زید کی ماہانہ آمدنی اتنی نہیں کہ وہ کرایہ کا مکان لے کر علیحدہ سکونت اختیار کر سکے۔ ان وجوہات کی بنا پر زید نے اپنے برادران نسبتی سے کہا کہ وہ اپنے گھر کی اوپر والی منزل میں اپنی اہلیہ کے لیے علیحدہ رہائش کا انتظام کرے گا اس طرح کہ ان کی معیشت اپنے بھائیوں کی معیشت سے الگ ہو گی۔ لیکن مکان کی تقسیم یا سیڑھی پر کوئی اوٹ وغیرہ نہیں دی جائے گی کیونکہ زید کے گھر والے اور خود زید اس حق میں نہیں کہ مکان تقسیم ہو یا کوئی اوٹ وغیرہ دی جائے۔مگر اہلیہ زید اپنے تقاضے پر بضد ہیں اور صورت دیگر میں خلہ کے لیے کہا ہے۔ اس ضمن میں اہلیہ زید کے بھائی اپنی ہمشیرہ کی مکمل تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ اب آپ سے عرض ہے کہ اس معاملے میں ہماری رہنمائی فرما کر عندی مشکور اور عند اللہ ماجور ہوں اور یہ بتائیے کہ ؛ أ. کیا زید پر اپنی اہلیہ کی یہ شرط ماننا شرعاً یا دیانتاً لازم ہے؟ ب. کیا اہلیہ زید کو ایسے شرط پیش کرنے کا شرعی یا دینی حق حاصل ہے اس طرح کہ اگر زید اس شرط کو نہ مانے گا تو وہ گھر ہی نہ آئیں گی یا خلہ کا مطالبہ کریں گی؟ ج. اگر زید کی والدہ زید کو یہ حکم دیں کہ ، "تو(زید) نہ ہی الگ مکان لے گا ، نہ ہی یہ مکان تقسیم ہوگا اور نہ ہی کوئی اوٹ بنے گی بھلے تیری بیوی تجھ سے خلہ لے لے۔" تو زید کیا کرے؟ کیا اس حکم کو مان لے یا بیوی کی شرط قبول کرے؟

    جواب نمبر: 29516

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ھ): 276=85-2/1432

    (۱) اہلیہ اور اس کے بھائیوں کی یہ شرط بیجا نہیں بلکہ بجا ودرست ہے۔
    (۲) یہ شرط لگانا کچھ ناحق نہیں بلکہ شرعاً ودیانةً ومصلحةً ادائے حقوق البیت والزوجیة یہ شرط مناسب ہے۔
    (۳) والدہ محترمہ کو بھی اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرنا چاہیے اور آپ بھی غور کرلیں اور یہ قاعدہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے إذا ابتلی ببلیتین فلیختر أہونہما یعنی ایک طرف تو بیوی اور اس کے بھائیوں کی مناسب شرط مان کر بیوی کے ساتھ حسن معاشرت سے گذر بسر کرنے کا معاملہ ہے دوسری طرف نہ مان کر بیوی سے ہمیشہ کے لیے ہاتھ دھوبیٹھنا ہے، ہمارے نزدیک اہون پہلی صورت ہے، اگر آپ کے نزدیک دوسری صورت ہو تو الگ بات ہے۔ آپ ماشاء اللہ خود بھی عالم ہیں، اہلیہ بھی عالمہ ہیں دو چار اپنے ہمدرد علمائے کرام سے اور مشورہ کرلیں، ہماری رائے بھی ان کے سامنے رکھ دیں پھر جو مناسب قدم ہو، اس کو اپناکر اپنا معاملہ حل فرمالیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند