• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 172365

    عنوان: لیز کی زمین میں وراثت کا حکم

    سوال: میرے نانا کی اولاد یعنی ان کے وراثوں میں 4 لڑکے اور 4 لڑکیا ں تھیں، اس میں 1 لڑکا نانا کی حیات میں زمین کے کاروبار کے حصّے میں سے الگ ہو گیا تھا ، اور 2 لڑکیو ں کی اولاد نہیں تھی، اب یہ میرے نانا کے سب لڑکے اور لڑکیوں کا انتقال ہو گیا ہے، لیکن 3 لڑکے اور 2 لڑکیوں کی اولاد زندہ ہیں، ، اب میرا سوال یہ ہے کہ 50 سال پہلے میرے نانا کی حیات میں کاروبار کرنے کے لئے 99 سال کی لیز پر ایک زمیں خریدی تھی ، اور اس زمین میں کاروبار ہو رہا تھا اس دوران میرے نانا کا انتقال ہو گیا تھا، اور اس کے بعد کچھ عرصے میں وہ کاروبار بند ہو گیا، اور جب میرے نانا کی وراثت تقسیم ہوئی تو اس زمین کو وراثت میں سے باکات رکھا گیا تھا، کیوں کہ اس وقت زمین کی ویلو نہ ہونے کی وجہ سے نظر انداز کرلیا تھا، لیکن اب اس کی ویلو مارکیٹ میں ہونے لگی ہے، اب اس زمیں کو فروخت کر رہے ہیں، تو اب اس کی قیمت کا جو روپیہ آے گا اس کا حصّہ صرف میرے نانا کے 3 لڑکے کی اولاد کو ملے گا یا میرے نانا کی 2 لڑکیوں کی اولاد کو بھی ملے گا ؟ اگر پانچوں (5 ) کی اولاد کو ملے گا تو کس حساب سے ملے گا؟ براہ کرم جواب تفصیل سے بتائیں۔

    جواب نمبر: 172365

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:1071-203T/sn=12/1440

     (الف ) لیز پر جو زمین لی جاتی ہے وہ شرعی اعتبار سے اجارہ اور کرایہ داری کا معاملہ ہوتا ہے، ” لیز“پر لینے کی وجہ سے آدمی شرعا مالک نہیں ہوتا اور وراثت صرف مملوکہ مال میں جاری ہوتی ہے؛ لہذا صورت مسئولہ میں آپ کے نانا نے جو زمین لیز پر لی تھی اس میں وراثت جاری نہ ہوگی اور نہ ہی اسے فروخت کرنا شرعا جائز ہوگا؛ لہذااس میں اجرائے وراثت کا سوال بے محل ہے۔(ب) اگر لیز پر لی ہوئی زمین کو حسب ضابطہ آگے کرایے پر دے کر کوئی آمدنی حاصل کی جاتی ہے تو اس میں نانا کے تمام بیٹے یٹیوں کی اولاد کا حق ہوگا یعنی اوّلاً ان کی تمام اولاد کے درمیان للذکرمثل حظ الانثیین(بیٹوں کو بیٹیوں کا دو گنا) تقسیم ہوگی پھر ان میں سے ہرایک کا حصہ ان کے ورثا یعنی: بیوی اور ان کی اولاد وغیرہ کے درمیان بھی اسی ضابطے کے مطابق تقسم ہوگی۔(ج) سوال میں اس کا تو ذکر ہے کہ نانا کا ترکہ تقسیم ہوا تھا؛ لیکن یہ مذکور نہیں ہے کہ اس میں ضابطہٴ شرعیہ کی رعایت کی گئی تھی یا نہیں؟ مثلا بیٹیوں کو شرع کے مطابق حصہ دیا گیا تھا یا نہیں؟ اگر نہیں دیا گیا تھا تو یہ شرعی تقسیم نہ تھی ، نانا کی تمام متروکہ جائداد میں ان کے چاروں بیٹوں کے ساتھ چاروں بیٹیوں کا بھی حق ہے؛ اس لیے ایسی صورت میں نانا مرحوم کے پورے ترکہ کی تقسیم از سر نو شریعت کے مطابق کرلی جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند