• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 604598

    عنوان:

    زندگی میں اپنی جائیداد کی تقسیم

    سوال:

    ایک آدمی کے دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں، اس نے ایک عمر کے بعد مثلاً ۶۰سال کی عمر میں اپنی پوری جائیداد میں سے دونوں لڑکیوں کو ان کا حصہ انہیں دیدیا اور یہ کہہ دیا کہ اب میری جائیداد میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے، اب اس آدمی کا انتقال ۷۰سال کی عمر میں ہوا، (۱) کیا اس طریقے سے کرنا اس آدمی کے لیے صحیح ہے؟ (۲) کیا اب جو زیادتی ان دس سال میں جائیداد میں ہوئی اس میں لڑکیوں کا حصہ ہوگا؟

    جواب نمبر: 604598

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 815-122T/M=10/1442

     (۱) زندگی میں باپ، اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے وہ ہبہ اور عطیہ کہلاتا ہے اور عطیہ میں تمام اولاد کے درمیان عدل و مساوات اختیار کرنا افضل ہے، لہٰذا مذکورہ صورت میں باپ نے جس طرح اپنی جائیداد میں سے دونوں لڑکیوں کو حصہ دیا تھا اسی طرح دونوں لڑکوں کو بھی دینا چاہئے تھا۔ سوال میں یہ وضاحت نہیں کہ دونوں لڑکوں کو بھی باپ نے اپنی زندگی میں حصہ دیا تھا یا نہیں اگر دیا تھا تو ٹھیک ہے اور اگر نہیں دیا تھا تو یہ عمل درست نہیں رہا۔ اولاد میں سے ایک کو دینا اور دوسرے کو بالکلیہ محروم کردینا گناہ ہے نیز باپ نے زندگی میں دونوں لڑکیوں کو جو حصہ دیا تھا وہ دینا اگر محض کاغذی طور پر ہوا تھا یا صرف زبانی دینا ہوا تھا باضابطہ عملی طور پر قبضہ و دخل اُن لڑکیوں کو نہیں سونپا گیا تھا تو ایسی صورت میں یہ دینا (ہبہ) بھی تام نہیں ہوا اور پوری جائیداد باپ کی ملکیت پر برقرار رہی۔ اور اگر لڑکیوں کو حصہ دے کر الگ الگ مالک و قابض بنا دیا تھا اور باپ ان حصوں سے دستبردار ہوگئے تھے تو وہ لڑکیاں اپنے اپنے حصے کی مالک بن گئیں۔

    (۲) جی لڑکیاں بحیثیت وارث، اس میں حقدار ہوں گی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند