• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 26231

    عنوان: اگر کوئی شخص اپنی تمام دولت اپنے بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان تقسیم کردے(اپنی مرضی سے یعنی بیٹوں کو زیادہ اور بیٹیوں کو کم دے) اوراپنی بیوی کو کچھ نہ دے تو کیا یہ شریعت کے مطابق درست ہے؟کسی کے انتقال کے بعد ہی میراث کا حکم جاری ہوتاہے۔ اس نے ایسا اچھائی کے لئے کیا نہ کہ سزا کی دینے کی نیت سے۔ اس کی بیوی اور اور بیٹیوں نے اس تقسیم کو مان لیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلام اس کی اجازت دیتاہے؟میں اس کا ایک بیٹاہوں، اور میری بہنیں کہتی ہیں کہ ہم سب مطمئن ہیں اور ہمیں کوئی شکایت نہیں ہے۔ میرے والد نے اپنی زندگی میں ایسا کیا تھا ، اب وہ حیات نہیں ہیں۔ براہ کرم، بتائیں کہ اب کیا کیا جا ئے گا؟

    سوال: اگر کوئی شخص اپنی تمام دولت اپنے بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان تقسیم کردے(اپنی مرضی سے یعنی بیٹوں کو زیادہ اور بیٹیوں کو کم دے) اوراپنی بیوی کو کچھ نہ دے تو کیا یہ شریعت کے مطابق درست ہے؟کسی کے انتقال کے بعد ہی میراث کا حکم جاری ہوتاہے۔ اس نے ایسا اچھائی کے لئے کیا نہ کہ سزا کی دینے کی نیت سے۔ اس کی بیوی اور اور بیٹیوں نے اس تقسیم کو مان لیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلام اس کی اجازت دیتاہے؟میں اس کا ایک بیٹاہوں، اور میری بہنیں کہتی ہیں کہ ہم سب مطمئن ہیں اور ہمیں کوئی شکایت نہیں ہے۔ میرے والد نے اپنی زندگی میں ایسا کیا تھا ، اب وہ حیات نہیں ہیں۔ براہ کرم، بتائیں کہ اب کیا کیا جا ئے گا؟

    جواب نمبر: 26231

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ھ): 2503=1553-11/1431

    جب سب نے بخوشی اس تقسیم کو مان لیا اور تمام اولاد اپنے اپنے حصہ پر قابض ہوگئی تو والد صاحب کا کیا ہوا، تصرف وتقسیم درست ہے۔ 


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند