• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 18796

    عنوان:

    میری والدہ کا ایک مکان تھا، میری والدہ زندگی میں اس مکان کی فروخت کے کاغذات تیار کرائے دوسرے بھائی سے او رچار لاکھ قیمت رکھی۔ اس میں چار بھائی اور دو بہن کی رضامندی لے لی۔ سب بھائی بہن کو کھلی پیش کش دی لینے کی۔ کوئی لینے آگے نہیں آیا۔ بعد میں میری والدہ نے مجھے لینے کو کہا۔ میں نے والدہ کی رضامندی سے وہ گھر رجسٹری کرالیا۔ میں نے تقریباً دو لاکھ روپیہ والدہ کو بھیجا اور پچیس سال تک گھر کا خرچ دیا۔ دوسرے تین بھائی میں سے کوئی بھی گھر کا خرچ او رذمہ داری نہیں لئے۔ والدہ اس سے بہت ناراض رہتی تھیں۔ والدہ کا انتقال ہوگیا ہے جس کے اخراجات بھی میں نے پورے کئے۔ اب چھوٹے دو بھائی والدہ کے فیصلہ کا انکار کرکے گھر کی تقسیم پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ شریعت کی روشنی میں جواب دیجئے کہ گھر پر کس کا حق ہے؟

    سوال:

    میری والدہ کا ایک مکان تھا، میری والدہ زندگی میں اس مکان کی فروخت کے کاغذات تیار کرائے دوسرے بھائی سے او رچار لاکھ قیمت رکھی۔ اس میں چار بھائی اور دو بہن کی رضامندی لے لی۔ سب بھائی بہن کو کھلی پیش کش دی لینے کی۔ کوئی لینے آگے نہیں آیا۔ بعد میں میری والدہ نے مجھے لینے کو کہا۔ میں نے والدہ کی رضامندی سے وہ گھر رجسٹری کرالیا۔ میں نے تقریباً دو لاکھ روپیہ والدہ کو بھیجا اور پچیس سال تک گھر کا خرچ دیا۔ دوسرے تین بھائی میں سے کوئی بھی گھر کا خرچ او رذمہ داری نہیں لئے۔ والدہ اس سے بہت ناراض رہتی تھیں۔ والدہ کا انتقال ہوگیا ہے جس کے اخراجات بھی میں نے پورے کئے۔ اب چھوٹے دو بھائی والدہ کے فیصلہ کا انکار کرکے گھر کی تقسیم پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ شریعت کی روشنی میں جواب دیجئے کہ گھر پر کس کا حق ہے؟

    جواب نمبر: 18796

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ب): 114=115-2/1431

     

    صورت مذکورہ میں جب سب بھائی بہنوں سے والدہ محترمہ نے اجازت لے کر اور انھیں کھلی پیش کش کرکے بھیجا تو جس بھائی نے خریدا وہ اس مکان کا تنہا مالک ہوگیا۔ اس میں اب کسی بھائی بہن کا حصہ نہیں رہا۔ اس لیے اس مکان کے تقسیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بھائیوں کا دباوٴ ڈالنا اور تقسیم کے لیے مطالبہ کرنا شرعا جائز نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند