• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 155083

    عنوان: کیا ایك ہی بیٹا مکمل جائداد کا مالک ہوگا ؟ یا سب کے درمیان تقسیم كی جائے گی ؟

    سوال: ایک مرحؤم والد نے 6 بیٹوں اور دو بیٹیوں کے ساتھ کسی بھی تحریری کے بغیر1 گھر چھوڑا ، لیکن مرحؤم رشتہ داروں اور دوستوں کے سا منے کئی بار تجویز کی کہ پوری جائیداد پہلے بیٹے کؤ جائے گی، چونکہ اس کے پیسے کی شراکت سے والدین نے گھر چلانے کے اخراجات، اپنی بیٹے اور بیٹیوں کی تعلیم اور بیٹیوں کی شادی کے انتظامات میں خرچ کیا تھا، اور خراب تعمیر شدہ گھر کی اچھی تعمیر کی۔ اور اس کی اپنی ماں کے کینسر کا علاج کرنے کے لئے مہنگی اخراجات پر پیسہ خرچ کیا، شرعی نقطہ نظر کیا ہے ؟ کیا اس کا واحد بیٹا ان کی مکمل جائداد کا مالک ہوگا ؟ یا سب کے درمیان تقسیم کیا جانا چاہئے ؟ شکریہ

    جواب نمبر: 155083

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:38-50/M=2/1439

    بیٹے کے پیسے کی شراکت سے گھر کے اخراجات وشادی بیاہ کے انتظامات گھر کی تعمیر اور ماں کے علاج معالجہ میں جو کچھ روپئے خرچ ہوئے اگر اس کی صورت یہ تھی کہ بیٹے نے روپیہ دے کر باپ کو مالک بنادیا تھا یا بیٹے نے اپنی مرضی سے خرچ کیا تھا اور قرض کے طور پر خرچ کا کوئی معاملہ طے نہیں کیا تھا تو ایسی صورت میں یہ بیٹے کی جانب سے تبرع واحسان شمار ہوگا اوراس کا اجر وثواب ملے گا لیکن اس کی وجہ سے بیٹا تنہا مکمل جائیداد کا حق دار نہیں ہوگا بلکہ پورا گھر مرحوم والد کا ترکہ شمار ہوگا اس میں بھی شرعی ورثہ کا حق ہوگا، اگر ماں حیات ہے تو ان کو آٹھواں حصہ ملے گا اور بقیہ حصے میں تمام بیٹے بیٹیاں اس طور پر وارث ہوں گے کہ ہربیٹے کو دوہرا اور ہربیٹی کو اِکہرا حصہ ملے گا۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند