معاملات >> وراثت ووصیت
سوال نمبر: 52669
جواب نمبر: 52669
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 735-570/D=6/1435-U بعض حالات میں بھائی بہن وارث ہوتے ہیں اور بعض حالات میں مثلاً جب مرحوم کے بیٹے موجود ہوں تو بھائی بہن کو نہیں ملے گا، لہٰذا جس کا ترکہ تقسیم کرنا ہو ان کے ورثا کی تفصیل لکھیں تو بتلایا جائے گا کہ کسے ملے گا اور کسے نہیں اورجسے ملے گا تو کتنا حصہ ملے گا؟ (۲) زندگی میں وراثت تقسیم نہیں ہوتی بلکہ زندگی میں اولاد یا دوسرے کسی کو دینا ہبہ اور عطیہ کہلاتا ہے اولاد کو اگر ہبہ کرنا چاہتا ہے تو اپنی ضروریات کے بقدر رکھ کر لڑکے لڑکیوں کو برابر برابر دیدے، اگر کچھ کمی بیشی کردیا تو اس کی بھی گنجائش ہے بشرطیکہ کسی وراث کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو بلکہ جس کو زیادہ دے رہا ہے اس کی خدمت گذاری یا دین داری یا ضرورت مندی کے پیش نظر زیادہ دے رہا ہو۔ (۳) زید کی مذکورہ وصیت لغو اور باطل ہے زید کا کل ترکہ ایکسو باون (152) حصوں میں منقسم ہوکر انیس (19) حصے بیوی کو سات (7)حصے بیٹی کو، چودہ چودہ (14-14) حصے ہر بیٹے کو ملیں گے۔ بیوی=۱۹۔ بیٹی= ۷۔ بیٹا=۱۴۔ بیٹا=۱۴۔ بیٹا=۱۴۔ بیٹا=۱۴۔ بیٹا=۱۴۔ بیٹا=۱۴۔ بیٹا=۱۴۔ بیٹا=۱۴۔ بیٹا=۱۴۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند