• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 52669

    عنوان: كیا اپنی زندگی میں وراثت تقسیم كی جاسكتی ہے؟

    سوال: سوال یہ ہے کہ وراثت کا حقدار کون کون ہوتا ہے ؟ کیا وراثت میں بھائی بہن کا بھی حصہ ہوتا ہے ؟ اسکی تفصیل کیا ہے ؟ کیا اپنی زندگی میں وراثت تقسیم کی جا سکتی ہے ؟ کسی کو کم کسی کو زیادہ؟ ------- زید مرحوم کی ملکیت میں 10 بیگھہ زمین ہے اور زید کے پس ماندگان مں 1بیوی 1بیٹی اور 9بیٹے ہین زید کی وصیت تھی 9 لڑکے اور1 لڑکی سب کا حصہ ایک ایک بیگھہ زمین ہے . اب زید کے انتقال کے بعد اسکے لڑکے کہ رہے ہیں کہ ہم اپنی بہن کو ایک بیگھہ نہیں بلکہ آ دھا بیگھہ زمین دینگے اور باقی آدھا بیگھہ اپنی امی(زید کی بیوی) کو دینگے . زید کے قول یا وصیت پے عمل کرنا درست ہے یا نہیں؟ یا زید کے لڑکوں کے قول پہ عمل درست ہے ؟ نیز کیا اس طرح وصیت کرنا درست ہے ؟ یا اسمیں شرعی فیصلہ کیا ہوگا؟ آپ شرعی رہنماء فرما دیں

    جواب نمبر: 52669

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 735-570/D=6/1435-U بعض حالات میں بھائی بہن وارث ہوتے ہیں اور بعض حالات میں مثلاً جب مرحوم کے بیٹے موجود ہوں تو بھائی بہن کو نہیں ملے گا، لہٰذا جس کا ترکہ تقسیم کرنا ہو ان کے ورثا کی تفصیل لکھیں تو بتلایا جائے گا کہ کسے ملے گا اور کسے نہیں اورجسے ملے گا تو کتنا حصہ ملے گا؟ (۲) زندگی میں وراثت تقسیم نہیں ہوتی بلکہ زندگی میں اولاد یا دوسرے کسی کو دینا ہبہ اور عطیہ کہلاتا ہے اولاد کو اگر ہبہ کرنا چاہتا ہے تو اپنی ضروریات کے بقدر رکھ کر لڑکے لڑکیوں کو برابر برابر دیدے، اگر کچھ کمی بیشی کردیا تو اس کی بھی گنجائش ہے بشرطیکہ کسی وراث کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو بلکہ جس کو زیادہ دے رہا ہے اس کی خدمت گذاری یا دین داری یا ضرورت مندی کے پیش نظر زیادہ دے رہا ہو۔ (۳) زید کی مذکورہ وصیت لغو اور باطل ہے زید کا کل ترکہ ایکسو باون (152) حصوں میں منقسم ہوکر انیس (19) حصے بیوی کو سات (7)حصے بیٹی کو، چودہ چودہ (14-14) حصے ہر بیٹے کو ملیں گے۔ بیوی=۱۹۔ بیٹی= ۷۔ بیٹا=۱۴۔ بیٹا=۱۴۔ بیٹا=۱۴۔ بیٹا=۱۴۔ بیٹا=۱۴۔ بیٹا=۱۴۔ بیٹا=۱۴۔ بیٹا=۱۴۔ بیٹا=۱۴۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند