• معاملات >> وراثت ووصیت

    سوال نمبر: 57396

    عنوان: میرے سسر کا تین سال پہلے انتقال ہوا۔ انھوں نے پراپرٹی چھوڑی جیسے دکانیں اور مکانات۔ اب میری ساس ان تمام پراپرٹی کی دیکھ بھال کررہی ہیں اور اس پراپرٹی کے کرایہ سے ہونے والی تمام آمدنی کو اپنے پاس رکھ رہی ہیں۔

    سوال: میرے سسر کا تین سال پہلے انتقال ہوا۔ انھوں نے پراپرٹی چھوڑی جیسے دکانیں اور مکانات۔ اب میری ساس ان تمام پراپرٹی کی دیکھ بھال کررہی ہیں اور اس پراپرٹی کے کرایہ سے ہونے والی تمام آمدنی کو اپنے پاس رکھ رہی ہیں۔ (۱) شریعت کے مطابق کیا ان کا اپنے ہاتھ میں یہ سب پراپرٹی کا رکھنا درست ہے؟ (۲) وہ غریب رشتہ داروں اور لڑکے اور لڑکیوں کی مالی طور پر مدد کررہی ہیں۔ ہم سب ایک ہی فیملی ہیں اور ایک ہی ساتھ پیار و محب سے رہ رہے ہیں۔ کیا اسلام اجازت دیتا ہے کہ وہ(میری ساس) تمام پراپرٹی اور آمدنی اپنے ہاتھ میں رکھیں؟ ہم کو آخرت کی فکر ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم بھی اور ہماری ساس بھی آخرت میں محفوظ رہیں۔ (۳)اگرمیرے سسر نے کچھ حصہ لڑکیوں کو اور بقیہ تمام لڑکوں کو دینے کے لیے کہا تو کیا یہ قابل قبول ہوگا ، واضح رہے کہ انھوں نے کوئی وصیت نہیں کی، صرف زبانی طور پر میری ساس سے کہا۔ اب میری ساس میرے سسر کی ہدایت کے مطابق تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔ کیا یہ درست ہے؟ (۴)اگر شریعت کے مطابق یہ قابل قبول نہیں ہے تو براہ کرم ساس، لڑکے اور لڑکیوں کا حصہ بتائیں۔

    جواب نمبر: 57396

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 349-357/L=4/1436-U (۱) (۲)

    شریعت کا حکم اور منشأ یہ ہے کہ میراث کی تقسیم میں جلدی کی جائے اور ہر وارث کو اس کا حق دیدیا جائے، صرف بیوی کا بغیر ورثاء کی رضامندی کے اپنے شوہر کے مال پر قابض رہنا درست نہیں، اسی طرح کرایہ کی آمدنی میں تمام ورثاء کا حق ہے؛ لہٰذا بغیر جمیع ورثاء کی اجازت سے اس میں تصرف کرنا درست نہیں؛ تمام ورثاء اگر اجازت دیدیں تو گنجائش ہوگی۔ (۳) آپ کے سسر کی بات کا اعتبار نہ ہوگا اور نہ ہی آپ کی ساس کا بغیر تمام ورثاء کی رضامندی اس کے مطابق تقسیم کرنا درست نہیں۔ (۴) اگر آپ اپنے خسر کے تمام ورثاء شرعی کی تفصیل لکھ کر بھیجیں تو ان شاء اللہ تمام ورثاء کے حصص کی تقسیم شریعت کے مطابق کردی جائے گی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند