• متفرقات >> حلال و حرام

    سوال نمبر: 24406

    عنوان: میرے والد نے 2000/ دراہیم خرید کر ایک آدمی پر ماہانہ قسط کے حساب سے پاکستانی روپئے پر فروخت کردیا، اور قسط کی وجہ سے اس آدمی سے 2000 / پاکستانی روپئے منافع مقرر کیا ، یعنی 2000 / دراہیم کی اپنی قیمت 45600 / روپئے پاکستانی ہے ، لیکن میرے والد نے 2000 / پاکستانی روپئے منافع لیا ، اب وہ آدمی کل منافع کے ساتھ 47600 / روپئے اداکرے گا، وہ رقم اور ماہانہ 1000/ روپئے قسط کے حساب سے ادا کر ے گا، کیا یہ سودا جائزہے یا نہیں؟

    سوال: میرے والد نے 2000/ دراہیم خرید کر ایک آدمی پر ماہانہ قسط کے حساب سے پاکستانی روپئے پر فروخت کردیا، اور قسط کی وجہ سے اس آدمی سے 2000 / پاکستانی روپئے منافع مقرر کیا ، یعنی 2000 / دراہیم کی اپنی قیمت 45600 / روپئے پاکستانی ہے ، لیکن میرے والد نے 2000 / پاکستانی روپئے منافع لیا ، اب وہ آدمی کل منافع کے ساتھ 47600 / روپئے اداکرے گا، وہ رقم اور ماہانہ 1000/ روپئے قسط کے حساب سے ادا کر ے گا، کیا یہ سودا جائزہے یا نہیں؟

    جواب نمبر: 24406

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ھ): 1973=1403-10/1431

    پنیتالیس ہزار چھ (45600)سو روپئے پاکستانی میں فروخت کرکے دوہزار روپئے پاکستانی مزید لینا طے کیا یہ تو سود ہے کہ جو حرام ہے، بجائے اس طرح معاملہ کرنے کے اگر اس طریق سے ایجاب وقبول کیا کہ دو ہزار درہم ، سینتالیس ہزار چھ سو (47600) میں فروخت کرتا ہوں اور دوسرا شخص اس کو قبول کرلے تو یہ صورت جواز کی ہے، بشرطیکہ قانوناً ممنوع نہ ہو۔ اصل یہ کہ ایک ملک کی کرنسی تو جنس واحد ہونے کی وجہ سے کمی زیادتی کی صورت میں سود کو مستلزم ہوتی ہے اور دو ملکوں کی کرنسی جنس واحد کے حکم میں نہیں ہوتی بلکہ مختلف الاجناس کے حکم میں ہوتی ہے، اسی لیے کمی زیادتی درست ہوتی ہے، البتہ قانونا منع ہو یا اتنی زیادتی کی جائے کہ جو خلافِ مروت ہو تو حکم بھی بدل جاتا ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند