• متفرقات >> دعاء و استغفار

    سوال نمبر: 49289

    عنوان: دعا وتعویذ قرآں وحدیث كی روشنی میں

    سوال: قرآن کے بارے مے جو یہ مشہور ہے کی اس کی فلاں آیت پڑھنے سے یہ کام ہو جاتا ہے ، فلاں سورت سے یہ فائدہ ہوتا ہے ، اس آیت یا سورت کو پڑھنے سے سر کا درد دور ہو جاتا ہے ، وغیرہ ۔ اس میں کتنی سچائی ہے ؟ سورتوں ور آیتوں کے خواص کس طرح ثابت ہیں ؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی نے اس طرح کا کوئی عمل کبھی کیا ہے؟

    جواب نمبر: 49289

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 41-3/L=1/1435-U بعض سورتوں کے خواص توخود احادیث میں مذکور ہیں،مثلاً: سورہٴ بقرہ کی تلاوت جس گھر میں ہو اس میں شیطان کا داخل نہ ہونا، اس سورت کا باعث خیر وبرکت ہونا، آیت الکرسی پڑھنے پر اللہ کا محافظ ہونا اور شیطان کا اس کے قریب نہ آنا، سورہٴ بقرہ کا آخر تلاوت کرنے پر شریر جن وانس سے محفوظ رہنا، سورہٴ کہف کی اول دس آیتوں کو یاد کرنے والے کا دجال سے مامون رہنا، سورہٴ اخلاص اور معوذتین پڑھ کر ہاتھ پر پھونک مارکر پورے بدن پر پھرنے اور اس عمل کو تین مرتبہ کرنا،اگر کوئی سورہٴ مومن کی ابتدا سے إلیہ المصیر تک اور آیت الکرسی صبح پڑھے تو شام تک اور شام کے وقت پڑھے تو صبح تک اس کا محفوظ رہنا، سورہٴ ملک پڑھنے والے کا عذاب قبر سے مامون رہنا اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سونے سے پہلے سورہٴ (سجدہ) اور سورہٴ ملک کے پڑھنے کا اہتمام فرمانا، سورہٴ فاتحہ میں ہربلا سے شفا ہونا، سورہٴ یٰسین پڑھنے والے کی ضرورتوں کا پورا ہونا، سورہٴ واقعہ کی تلاوت کرنے والوں کا فاقہ سے محفوظ رہنا وغیرہ اس کے علاوہ ادعیہ واذکار کا مختلف مقاصد کے لیے پڑھنے کا احادیث سے ثبوت ملتا ہے، مثلاً: لاحول ولا قوة الا باللہ میں ننانوے امراض کی دوا ہونا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مصیبت کے وقت لا الٰہ الا اللہ العظیم الحلیم لا الٰہ الا اللہ یا رب رب العرش العظیم لا الٰہ الا ہو رب السماوات ورب الارض ورب العرش الکریم پڑھنا، کسی شخص کا کسی جگہ آنے کی صورت میں اعوذ بکلمات اللہ التامات من شر ما خلق پڑھ لینے پر کسی چیز کا اس کو تکلیف نہ پہنچانا، غموں کی کثرت والے شخص کا یہ دعا ”اللہم انی عبدک وابن عبدک وابن أمتک في قبضتک ناصیتي بیدک ماضٍ في حکمک عدل في قضائک أسلک بکل اسم ہو لک سمیت بہ نفسک أو أنزلتہ في کتابک أوعلمتہ أحدًا من خلقک أو ألہمت عبادک أو استأثرت بہ في مکنون الغیب عندک أن تجعل القرآن ربیع قلبی وجلاء ہمي وغمی“ پڑھنے پر غموں کا دور ہوجانا، گھبراہٹ کے وقت ”أعوذ بکلمات اللہ التامات من غضبہ وعقابہ ومن ہمزات الشیاطین وأن یحضورن“ پڑھنا، کعب بن احبار رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ اگر میں یہ ”کلمات“ نہ پڑھتا تو یہود مجھے گدھا بنادیتے، ان سے پوچھا گیا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا ”أعوذ باللہ العظیم الذي لیس شيء أعظم منہ وبکلمات اللہ التامات التي لا یجاوزہن برّ ولا فاجر وبأسماء اللہ الحسنی ما علمت منہا وما لم أعلم من شر ما خلق وذرأوبرأ“ قرض کی ادائیگی کے لیے ”اللہم أکفني بحلالک عن حرامک وأغنني بفضلک عم سواک“ پڑھنا وغیرہ اس کے علاوہ بھی احادیث وآثار میں مختلف مقاصد کے لیے مختلف ادعیہ واذکار کا پڑھنا ثابت ہے۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا دردِ سر کے موقع پر اپنے ہاتھ کو اپنے سر پر رکھ کر یہ دعا پڑھا کرتی تھیں ”بذنبي وما یغفرہ اللہ أکثر“ قال في الدر المنثور: وأخرج ابن سعد عن ابن أبي ملیکة أن أسماء بنت أبي بکر الصدیق کانت تصدع فتضع یدہا علی رأسہا وتقول: بذنبي وما یغفرہ اللہ أکثر“ (الدر المنثور: ۱۰/۶ بحوالہ الیواقیت الغالیہ: ۱/ ۲۶۷) قرآن شریف کی آیت وننزل من القرآن ما ہو شفاء ورحمة للموٴمنین کی تفسیر میں بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ قرآن جس طرح مراضِ باطنہ کی شفاء ہے امراضِ ظاہرہ کی بھی شفا ہے کہ آیاتِ قرآن پڑھ کر مریض پر دم کرنا، تعویذ لکھ کر گلے میں ڈالنا امراضِ ظاہرہ کے لیے بھی شفا ہوتا ہے (معارف القرآن: ۵/ ۵۲۲) نیز مسلم شریف کی ایک روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً ایسے رقیہ وتعویذ کی اجازت دی جس میں شرک نہ ہو، اسی وجہ سے علماء کا تین شرطوں کے ساتھ رقیہ کے جواز پر اجماع ہے: (۱) یہ کہ وہ آیات قرآنیہ اسماء حسنی وغیرہ پر مشتمل ہو (۲) عربی یا اس کے علاوہ ایسی زبان میں ہو جس کے معانی معلوم اوردرست ہوں (۳) یہ عقیدہ ہو کہ تعویذ موٴثر بالذات نہیں (اس کی حیثیت دوا کی سی ہے) موٴثر بالذات صرف اللہ رب العزت ہیں (فتح الباری) حاصل یہ ہے کہ تعویذ اور رقیہ کا ثبوت ہے اور مذکورہ بالا تین شرطوں کے ساتھ اس کی اجازت ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند