• عبادات >> احکام میت

    سوال نمبر: 601404

    عنوان:

    نماز جنازہ کے فوراً بعد عذر وتختہ کے نام پر فی كس سوروپیہ كے حساب سے چندہ كركے میت كے اہل خانہ كی امداد؟

    سوال:

    مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں؟ السلام علیکم صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع ایبٹ آباد کی ایک تحصیل لورہ جس کی آبادی تقریباایک لاکھ بیس ہزار کے قریب ہے۔ اس پوری تحصیل میں 1930ء سے ایک رواج چلا آرہا ہے کہ جب بھی اس علاقہ میں قطع نظر امیر غریب کے جب بھی کوئی شخص فوت ہوتا ہے تو نماز جنازہ کے فور اً بعد عذر (جو مرددیتے ہیں)اور تختہ (جوعورتیں دیتی ہیں) کے نام سے دور حاضر میں اوسطاً 100 روپے فی کس دیتا ہے جو باقاعدہ کاپی پر تحریر کیاجاتا ہے اور دینے والے کی نیت صرف اور صرف امداد ہوتی ہے نہ کہ قرض۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ رواج شروع ہوا تو اُس وقت غربت تھی اور زیادہ تر مسلمانوں کے پاس میت کی تجہیزو تکفین ،کفن اور ماتم کے اخراجات نہیں ہوتے تھے تو اُس وقت لوگوں نے ایک یا دو آنے (موجودہ 6 سے 12پیسے)سے یہ امداد شروع کی جو روپے کی وقعت یا ویلو کم ہونے کی وجہ سے آج تقریباً 100 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ جہاں تک دور حاضر میں غربت کی بات ہے تو آج غربت اُ س زمانے کے مقابلے میں زیادہ ہے آج امیر ، امیر تر ہوتا جارہا ہے اور غریب دن بدن غریب تر ہورہا ہے۔ دوسر اآج تجہیزوتکفین سے لے کر ماتم کے اخراجات بہت زیادہ ہوگئے ہیں اور تیسرا اُ س زمانے کے مقابلے میں آج پیار ومحبت اور ہمدردی نہ ہونے کے برابر ہے۔ عذر وتختہ کی مد سے آنے والی رقم سے تجہیزوتکفین اور ماتم کے اخراجات باآسانی پورے ہوجاتے ہیں اور کسی بھی شخص کو قرض لینے کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ وہ کوئی مالی بوجھ محسوس کرتا ہے۔ پوچھنا یہ مقصود ہے کہ شرعی لحاظ سے اس کی کیا حیثیت ہے، جبکہ:

    1)۔ دینے والایہ رقم صرف اور صرف امداد کی نیت سے دیتا ہے۔ امیر غریب کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ امیر کو اس لیے دیا جاتا ہے تاکہ غریب بھی یہ امداد کھلے دل سے قبول کرے اور اُ سکی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو۔

    2)۔ دینے والاقطعی طورپر قرض کی نیت سے نہیں دیتا ۔ کیونکہ قرض کی وصولی کے لیے واپسی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔جبکہ ہمارے پورے علاقے میں گزشتہ تقریباً ایک صدی سے یہ رواج موجود ہے لیکن آج تک ماتم پر نہ جانے والا اور امداد نہ دینے والے سے واپسی کا مطالبہ کرنے کی کوئی ایک مثال بھی نہیں ہے۔

    3)۔ جہاں تک نام اور رقم تحریر کرنے کی بات ہے وہ ایک تو یاداشت کے لیے لکھا جاتا ہے اور دوسرا لکھنے اور وصول کرنے والے ماتم والے گھر کے لوگ نہیں ہوتے بلکہ محلے اور گاوٴں کے دوسرے لوگ ہوتے ہیں جو رقم اکھٹی کرکے گھروالوں کو دیتے ہیں۔ اس طریقے سے رقم کا ہیر پھیر یا کمی بیشی کا امکان نہیں ہوتا۔

    4)۔ بعض لوگ ماتم کی اطلاع ہونے کے بعد اپنی کاپی کو بھی دیکھ لیتے ہیں وہ اسلیے کہ جو آدمی ان کے ہاں آیا ہواُس کو وہ احسان سمجھتے ہوئے اُس کے پاس ہر حال میں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔بے شک اُس نے عذر تختہ نہ دیا ہو۔اور جو آدمی ان کے پاس نہ آیاہو وہ وہاں پر بھی جاتے ہیں، لیکن پہاڑی علاقہ یا سفری مشکلات کی وجہ سے وہاں جانا ضروری نہیں سمجھتے اور شاید یہی وجہ ہے کہ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں بہت بڑے بڑے جنازے ہوتے ہیں۔ حضرات محترم! ان حالات وواقعات کے پیش نظر شریعت کا کیا حکم ہے اور کیا یہ شرعی لحاظ سے جائزہے؟ پر امید ہوں کہ آپ اپنی پہلی فرصت میں جواب سے مطلع فرمائیں گے۔جس کے لیے میں بے حد ممنون ہوں گا۔

    جواب نمبر: 601404

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:250-65T/N=5/1442

     آپ کے علاقے میں کسی کی وفات پر نماز جنازہ کے فوراً بعد عذر وتختہ کے نام فی کس ۱۰۰/ روپے کے حساب سے میت کے اہل خانہ کی امداد کا جو رواج ہے، وہ مختلف شرعی مفاسد کی بنا پر بلا شبہ امر منکر ہے، ایسے رواج کو ختم کرنا ضروری ہے۔ چند مفاسد حسب ذیل ہیں:

    الف: امداد ضرورت مند کی جاتی ہے اور یہ امداد حسب رسم ورواج امیر وغریب سب کی ہوتی ہے۔

    ب: امداد دینے والا امداد دینے میں با اختیار ہونا چاہیے اور یہاں رسم ورواج کی وجہ سے ہر شخص دینے پر مجبور جیسا ہوتا ہے؛ اسی لیے نہ دینے کی صورت میں وہ خود عار وشرم محسوس کرتا ہے اور لوگ بھی اُسے اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے۔

    ج: ہر شخص کی مالی حیثیت یکساں نہیں ہوتی، بعض لوگوں کے لیے ۱۰۰/ روپے دینا بھی بھاری ہوتا ہے۔

    د: 100، 100 روپے جمع ہوکر ہزاروں روپے ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے میت کے اہل خانہ مختلف رسومات وخرافات کا ارتکاب کرتے ہیں، پس یہ امداد رسومات وخرافات کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔

    عن أبي حُرة الرقاشي عن عمہ قال:قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ”ألا لاتظلموا، ألا لا یحل مال امریٴ إلا بطیب نفس منہ“، رواہ البیھقي في شعب الإیمان والدارقطني فی المجتبی (مشکاة المصابیح، کتاب البیوع، باب الغصب والعاریة، الفصل الثاني، ص: ۲۵۵، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند