• عبادات >> احکام میت

    سوال نمبر: 24815

    عنوان: میرا سوال یہ ہے کہ نماز کے بعد اجتماعی دعا حدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟اگر نہیں! تو ہم کیوں پڑھتے ہیں؟ 
    (۲) کسی کی قبر پر جا کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھاسکتے ہیں یا نہیں؟
    (۳) جس طرح ہم کسی ولی یا بزرگ کی قبر پر جاکران سے کچھ نہیں مانگ سکتے اسی طرح روضہ ٴ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر جا کر ان سے مانگ سکتے ہیں یا نہیں؟
    (۴) کسی کی فاتحہ خوانی میں جاکر ہاتھ اٹھا کر ان کے لیے دعا مانگنا حدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو مانگنے میں کوئی حرج تو نہیں؟ 


    سوال: میرا سوال یہ ہے کہ نماز کے بعد اجتماعی دعا حدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟اگر نہیں! تو ہم کیوں پڑھتے ہیں؟ 
    (۲) کسی کی قبر پر جا کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھاسکتے ہیں یا نہیں؟
    (۳) جس طرح ہم کسی ولی یا بزرگ کی قبر پر جاکران سے کچھ نہیں مانگ سکتے اسی طرح روضہ ٴ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر جا کر ان سے مانگ سکتے ہیں یا نہیں؟
    (۴) کسی کی فاتحہ خوانی میں جاکر ہاتھ اٹھا کر ان کے لیے دعا مانگنا حدیث سے ثابت ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو مانگنے میں کوئی حرج تو نہیں؟ 

    جواب نمبر: 24815

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(تب): 1634=346-9/1431

    فرض نماز کے بعد صحیح احادیث میں دعا کے زیادہ قبول ہونے کا ذکر آیا ہے، نماز کے بعد دعا کرنے والے اسی حدیث پر عمل کرتے ہوئے دعا کرتے ہیں تو غیراختیاری طور پر ا جتماعی دعا کی شکل بن جاتی ہے ورنہ ہم نہ تو اس کے قائل ہیں نہ ہی ایسا کوئی عقیدہ ہے۔ ہاں ایسی صورت میں کبھی کبھی دعا کو ترک کردینا چاہیے کبھی آگے پیچھے کرلینا چاہیے تاکہ اجتماعیت کا اہتمام ظاہر نہ ہو۔
    (۲) قبر کے سامنے ہاتھ نہ اٹھانا چاہیے کیونکہ اس سے شبہ ہوتا ہے کہ یہ قبر والے سے مانگ رہا ہے۔
    (۳) وہاں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگنا جائز نہیں، البتہ وہاں ان سے درخواست کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ہمارے فلاں مقصد کے لیے دعا فرمادیجیے۔
    (۴) وہاں ہاتھ اٹھاکر دعائے مغفرت اور دیگر دعائیں کرنے میں کوئی حرج نہیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند