• عقائد و ایمانیات >> دعوت و تبلیغ

    سوال نمبر: 20928

    عنوان:

    شادی کے کچھ عرصے بعد حالات کو دیکھتے ہویے میں نے اور میری بیوی نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم گھر میں ٹی وی نہیں رکھیں گے۔ اس بات پر ہم دونوں کا اتفاق ہوگیا ۔ الحمد للہ، ٹی وی کے نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں کافی سکون بھی آیا ہے ۔ ٹی وی کے بارے میں آپ کی ویب سائٹ پر جو اورسوالوں کے جواب آپ نے دیا ہے وہ بلا شبہ درست ہے اور صحیح ہے۔ اور یہ فرق ہم نے محسوس کیا جب ٹی وی کو گھر سے نکال دیا، مگر شادی کے دوسال ہونے کو ہیں اور الحمد للہ ، اللہ کی رحمت یعنی بیٹی گھر میں آئی ہے۔ اب بیوی کہتی ہے کہ میرا وقت نہیں گذرتا اور گھر میں دوبارہ ٹی وی لائیں۔ واللہ اعلم، کیا بات ہوئی کہ ان کا ذہن پھر اسی طرف چلا گیا۔ میں نے کئی دفعہ سمجھایا کہ دوبارہ سوچیں، ٹی وی کا دوبارہ گھر میں آنا صحیح نہیں ہے۔ دین کو جاننے کے لیے میں نے بہت سارے بیانات اور دینی کتابیں بھی لاکر رکھی ہے۔ مگر بیگم صاحبہ بضد ہیں کہ ٹی وی لا کر دیں۔ اس وجہ سے چار پانچ دفعہ بہت بحث ہو چکی، مگر بات نہیں رہی ہے۔آپ مشورہ دیں کہ میں کیا کروں؟ مجھ سے پوچھے تو میں کسی صورت میں ٹی وی نہ لاؤں؟ آپ شریعت کو سامنے رکھ کر رائے فرمائیں۔

    سوال:

    شادی کے کچھ عرصے بعد حالات کو دیکھتے ہویے میں نے اور میری بیوی نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم گھر میں ٹی وی نہیں رکھیں گے۔ اس بات پر ہم دونوں کا اتفاق ہوگیا ۔ الحمد للہ، ٹی وی کے نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں کافی سکون بھی آیا ہے ۔ ٹی وی کے بارے میں آپ کی ویب سائٹ پر جو اورسوالوں کے جواب آپ نے دیا ہے وہ بلا شبہ درست ہے اور صحیح ہے۔ اور یہ فرق ہم نے محسوس کیا جب ٹی وی کو گھر سے نکال دیا، مگر شادی کے دوسال ہونے کو ہیں اور الحمد للہ ، اللہ کی رحمت یعنی بیٹی گھر میں آئی ہے۔ اب بیوی کہتی ہے کہ میرا وقت نہیں گذرتا اور گھر میں دوبارہ ٹی وی لائیں۔ واللہ اعلم، کیا بات ہوئی کہ ان کا ذہن پھر اسی طرف چلا گیا۔ میں نے کئی دفعہ سمجھایا کہ دوبارہ سوچیں، ٹی وی کا دوبارہ گھر میں آنا صحیح نہیں ہے۔ دین کو جاننے کے لیے میں نے بہت سارے بیانات اور دینی کتابیں بھی لاکر رکھی ہے۔ مگر بیگم صاحبہ بضد ہیں کہ ٹی وی لا کر دیں۔ اس وجہ سے چار پانچ دفعہ بہت بحث ہو چکی، مگر بات نہیں رہی ہے۔آپ مشورہ دیں کہ میں کیا کروں؟ مجھ سے پوچھے تو میں کسی صورت میں ٹی وی نہ لاؤں؟ آپ شریعت کو سامنے رکھ کر رائے فرمائیں۔

    جواب نمبر: 20928

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی(ھ): 693=539-4/1431

     

    بیگم صاحبہ کی ضد کا ناجائز وگناہ ہونا بھی ظاہر ہے اور آپ کی ضد کا ہرطرح مناسب ہونا بھی اظہر ہے ایسی صورت میں اسلم صورت یہ ہے ہ بیگم کی ضد خواہ سختی وتشدد پر مشتمل ہو مگر آپ حکمت بصیرت نرمی شفقت ہی کو اپنی ضد میں ملحوظ رکھتے رہیں، اگر آپ نے بھی سختی کا برتاوٴ شروع کردیا اور اس میں کچھ زیادتی سے کام لیا ہے تو آگ سے آگ بجھانے کی کوشش کے مترادف ہوجانے کا اندیشہ ہے، آپ نرمی محبت، اخلاص، حُسن معاشرت کے اعلیٰ درجہ کو اختیار کریں، وہ ان شاء اللہ ایسا ہوجائے گا کہ آگ پر ٹھنڈا پانی ڈال کر بجھادی تو آگ ہی فنا ہوجاتی ہے: وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ․ وَلَا تَسْتَوِیْ الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَاَنَّہُ وَلِیٌّْ حَمِیْمٌ (سورہٴ فصلت، پ:۲۴) ان چار پانچ آیاتِ مبارکہ سے اسی قسم کا مضمون ثابت ہے، ترجمہٴ شیخ الہند رحمہ اللہ یا حضرت مفتی محمد شفیع صاحب کی تفسیر معارف القرآن میں مطالعہ فرمالیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند