عنوان: کیا فضائل کا مدار شرعی معنی پر ہے یا لغوی معنی پر
سوال: جو تبلیغی علماء ان آیات و احادیث کو جو قتال کے ساتھ خاص ہیں ان آیات و احادیث میں بیان کئے گئے فضائل یعنی جہاد بمعنی قتال کے فضائل دیگر دینی جد و جہد اور کوشش پر ملے گا ۔بعض علماء کا یہ کہنا کہ لفظ جہاد قتال کے علاوہ دوسرے معنی میں بھی آیا ہے اس لئے قتال کا ثواب تمام دینی جد و جہد میں ملے گا۔
(۲) کیا فضائل کا مدار شرعی معنی پر ہے یا لغوی معنی پر جس طرح نماز ، زکاة صوم اور حج وغیرہ بھی اپنے اصطلاحی معنی کے علاوہ لغوی اعتبار سے دیگر معانی میں استعمال ہوا ہے ؟ کیا کسی نے یہ نظریہ بنایا ؟ کہ نماز کا ثواب درود پر۔زکاة کا ثواب صفائی پر۔روزے کا ثواب تھوڑی دیر بھوکا رہنے پر۔اور حج کا ثواب نیت و ارادہ پر ملے گا؟ اگر یہ نظریہ درست ہے کہ وہ آیتیں اور حدیثیں جو قتال کے ساتھ خاص ہیں ان کا ثواب تبلیغی جماعت یا دیگر جد و جہد پر ملے گا تو صریح دلیل قرآن پاک سے ۔یا حدیث پاک سے ۔یا اجماع صحابہ سے ۔یا مجتہدین سے پیش کیجئے گا (آپ کا شکر گزار رہونگا)۔مثال کے طور پر انفروا خفافا و ثقالا الخ قتال کے ساتھ خاص ہے اس آیت کو دیگر دینی جد وجہد پر فٹ کرنا تحریف معنوی ہے یا نہیں ؟
جواب نمبر: 15172401-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 965-1027/N=10/1438
(۱، ۲): قرآن وحدیث میں مختلف عبادات اور دینی کاموں کے جو فضائل آئے ہیں، ان کا مدار محض لغوی معنی پر نہیں ہے ؛ بلکہ شرعی معنی اورشرعی حقیقت پر ہے اور قرآن وحدیث میں جو نصوص جہاد بمعنی قتال فی سبیل اللہ کے ساتھ خاص ہیں، انھیں قتال فی سبیل اللہ کے علاوہ کسی اور دینی خدمت پر فٹ کرنا یا اس کے لیے بھی قتال فی سبیل اللہ کے فضائل ثابت کرنا درست نہیں ۔
(۳): انفروا خفافاً ا لآیة کی آیت قتال فی سبیل اللہ کے ساتھ خاص ہے، یہ غزوہ تبوک کے بارے میں نازل ہوئی ہے؛ اس لیے اس آیت کو کسی اور دینی جد وجہد یا خدمت پر فٹ کرنا صحیح ودرست نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند