• معاشرت >> لباس و وضع قطع

    سوال نمبر: 12488

    عنوان:

    اسلام میں مونچھ کا کیا حکم ہے؟ میں اس کے بارے میں پریشان ہوں۔ کیا مونچھ مکمل طور پر صاف کی جانی چاہیے یا صرف چھوٹی کی جانی چاہیے؟ ہمارے علاقہ کے ایک عالم کی بہت لمبی مونچھ ہے اوپر کے ہونٹ کے دونوں کناروں کی جانب۔اورانھوں نے کہا کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی سنت پرعمل کررہے ہیں جو کہ اپنی مونچھ کے بال ہونٹ کے قریب کھینچا کرتے تھے جب وہ گہری سوچ میں ہوتے تھے کسی چیز کے بارے میں اور اس سے یہ بات نکالی گئی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہونٹ کے دونوں طرف بال رکھتے تھے۔ کیا صحیح ہے؟اس بارے میں ہمارے ماضی کے متقی لوگوں کا کیا عمل تھا جیسے محمود حسن، انور شاہ کشمیری، اشرف علی تھانوی رحمہم اللہ؟ برائے کرم مجھے بہترین حکم پانے میں مدد کریں ۔ نیز اس کی تائید میں کچھ گرافک بھی بھیجیں تاکہ یہ مسئلہ بہترین طریقہ پر سمجھا جاسکے۔

    سوال:

    اسلام میں مونچھ کا کیا حکم ہے؟ میں اس کے بارے میں پریشان ہوں۔ کیا مونچھ مکمل طور پر صاف کی جانی چاہیے یا صرف چھوٹی کی جانی چاہیے؟ ہمارے علاقہ کے ایک عالم کی بہت لمبی مونچھ ہے اوپر کے ہونٹ کے دونوں کناروں کی جانب۔اورانھوں نے کہا کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی سنت پرعمل کررہے ہیں جو کہ اپنی مونچھ کے بال ہونٹ کے قریب کھینچا کرتے تھے جب وہ گہری سوچ میں ہوتے تھے کسی چیز کے بارے میں اور اس سے یہ بات نکالی گئی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہونٹ کے دونوں طرف بال رکھتے تھے۔ کیا صحیح ہے؟اس بارے میں ہمارے ماضی کے متقی لوگوں کا کیا عمل تھا جیسے محمود حسن، انور شاہ کشمیری، اشرف علی تھانوی رحمہم اللہ؟ برائے کرم مجھے بہترین حکم پانے میں مدد کریں ۔ نیز اس کی تائید میں کچھ گرافک بھی بھیجیں تاکہ یہ مسئلہ بہترین طریقہ پر سمجھا جاسکے۔

    جواب نمبر: 12488

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 712=531/ل

     

    مونچھ کاٹنے میں مبالغہ کرنا مسنون ہے، یعنی مونچھ اس طرح کاٹی جائیں کہ وہ مونڈنے کے قریب ہوجائیں، ہونٹ کے دونوں کناروں کی جانب کے بال کے چھوڑنے کی گنجائش ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس طرح چھوڑنا ثابت ہے: وأخرج ابن عساکر عن أبي رجاء العطاردي قال: کان عمر -رضي اللہ عنہ- رجلاً طویلاً جسیما أضلع شدید الضلع أبیض شدید الحمرة في عارضیہ خفة سبلتہ کبیرة وفي أطرافھا صھبة (تاریخ الخلفاء للسیوطي: ۱۰۳، دار الکتب العلمیہ، بیروت) البتہ اعاجم اور اہل کتاب سے مشابہت کی وجہ سے نہ چھوڑنا اولیٰ وبہتر ہے: وأما طرفا الشارب وھما السبالان فقیل ھما منہ وقیل من اللحیة وعلیہ فقیل لا بأس بترکھا وقیل یکرہ لما فیہ من التشبہ بالأعاجم وأھل الکتاب وھذا أولی بالصواب (شامي: ۳/ ۵۸۱، ط زکریا دیوبند)


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند