• معاشرت >> لباس و وضع قطع

    سوال نمبر: 601862

    عنوان:

    مرد کے لیے ہیرا پہننا كیسا ہے اور اس پر زكات ہے یا نہیں؟

    سوال: ہیرے پر زکات کا کیا حساب ہے؟ مرد کے لیے ہیرا پہننا جائز ہے یا نہیں؟ہیرے کا نگینہ سفید سونے پر لگا ہوتا ہے تو کیا مرد ہیرے کا چھلا پہن سکتے ہیں؟

    جواب نمبر: 601862

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:347-455/N=8/1442
    (۱): زکوة صرف سونا، چاندی، کرنسی اور مال تجارت پر ہوتی ہے، ہیرے وغیرہ پر نہیں ہوتی ؛ لہٰذا اگر ہیرا، فروخت کرنے کی نیت سے نہیں خریدا گیا؛ بلکہ استعمال وغیرہ کے لیے خریدا گیا یا کسی نے ہدیہ کردیا یا وراثت میں ملا تو اس پر زکوة نہیں ہوگی۔
    (لا زکاة فی اللآلیٴ والجواھر) وإن ساوت ألفاً اتفاقاً (إلا أن تکون للتجارة)، والأصل أن ما عدا الحجرین والسوائم إنما یزکي بنیة التجارة إلخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، ۳:۱۹۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۵: ۴۶۹، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔
    (۲ ، ۳): مرد کے لیے سونا یا ہیرا پہننا جائز نہیں، وہ بہ طور زینت صرف چاندی کی انگوٹھی پہن سکتا ہے بہ شرطیکہ وہ ایک مثقال (ساڑھے ۴/ ماشہ، یعنی: ۴/ گرام، ۳۷۴/ ملی گرام)سے زیادہ نہ ہو؛ بلکہ اگر اس سے کچھ کم ہو تو بہتر ہے، پس اگر سفید سونے پر ہیرے کا نگینہ لگایا گیا تو مرد کے لیے ایسی انگوٹھی یا چھلا پہننا جائز نہ ہوگا۔
    (ولا یتحلی) الرجل (بذھب وفضة) مطلقاً (إلا بخاتم إلخ)(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، فصل فی اللبس ۹: ۵۱۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
    (ولایتختم) إلا بالفضة لحصول الاستغناء بھا فیحرم (بغیرھا کحجر)إلخ (وذھب وحدید وصفر) ورصاص وزجاج وغیرھا إلخ ولا یزیدہ علی مثقال(المصدر السابق ۹:۵۱۷-۵۲۰)۔
    قولہ:”ولا یزیدہ علی مثقال“:وقیل: لا یبلغ بہ المثقال،ذخیرة۔ أقول: ویوٴیدہ نص الحدیث السابق من قولہ علیہ الصلاة والسلام:”ولا تتمہ مثقالاً“(رد المحتار)۔
    وینبغي أن تکون فضة الخاتم المثقال ولا یزاد علیہ، وقیل: لا یبلغ بہ المثقال، وبہ ورد الأثر کذا فی المحیط (الفتاوی الھندیة، کتاب الکراھیة، الباب العاشر فی استعمال الذھب والفضة، ۵: ۳۳۵، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند