معاملات >> بیع و تجارت
سوال نمبر: 153922
جواب نمبر: 15392201-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1375-1324/H=1/1439
ان اشیاء کی تجارت کی اگرچہ گنجائش ہے مگر نہ کرنا بہتر ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
میں ایک کمپنی کے ساتھ بیوٹی پروڈکٹ (کاسمیٹک)کا کام کرتی ہوں یہ کام گھر بیٹھے ہوتاہے، یعنی لوگ انٹرنیت سے آرڈر کرتے ہیں اور گھر پر آرڈر آجاتا ہے۔ اپنے آس پاس کے لوگوں کو یہ سامان بیچنا ہوتا ہے۔ (۱)کیا گھر بیٹھے یہ کام کرنا جائز ہے؟(۲)کمپنی سے سامان سو روپیہ کا ملتا ہے اور گراہک کو ایک سو پچیس کادیتے ہیں اگر یہ سامان زکوة میں دیں تو سو روپئے ادا ہوں گے یا ایک سو پچیس؟ (۳)کچھ سامان صرف ملازم کو بیچتے ہیں کم قیمت پر اس تاکید کے ساتھ کہ اس کو آگے نہیں بیچنا ہے ،تو اگر آگے بیچ دیں تو کیا جائز ہے؟ (۴)کمپنی کی طرف سے پچیس فیصد منافع ہوتاہے اگر گراہک سے زیادہ لیں تو کیا جائز ہے؟
3272 مناظرخیار مجلس سے کیا مراد ہے اوریہ کون سا مسئلہ ہے تفصیل سے بتائیں؟ (۲)کیا یہ بات صحیح ہے کہ خیار مجلس والے مسئلہ میں بعض علماء غالباً مفتی تقی عثمانی یا پھر مولانا محمود الحسن فرماتے ہیں کہ خیار مجلس میں امام شافعی کا قول صحیح حدیث کے مطابق ہے۔ لیکن ہم امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں اس لیے ہم پر ان کی تقلید واجب ہے۔ (۳)کیا صحیح حدیث کو چھوڑ کر ہم امام کی تقلید کرسکتے ہیں؟ جواب جلدی عطافرماویں۔
7226 مناظرتجارت کے اسلامی اصول کیا ہیں؟
4141 مناظرجلدی رقم ادا كرنے كی صورت میں رقم كا كچھ حصہ معاف كرنا؟
6099 مناظرمیرا
سوال یہ ہے کہ گاہک دکان دا رسے کچھ مدت کے ادھار پر کپڑا خریدنا چاہتاہے تو کیا
اس کپڑے کو بیچ کر کچھ رقم حاصل کرلے اور ان پیسوں سے اپنی ضرورت پوری کرلے؟
دکاندار گاہک کو کہتاہے کہ یہ کپڑا پانچ سو روپیہ کا ہے (جب کہ وہ کپڑا بازار میں
عام طور پر ڈھائی سو روپیہ میں دستیاب ہے) لیکن سودا ادھار ہونے کی وجہ سے دکان دار
اس کپڑے کو پانچ سو روپیہ میں فروخت کردیتا ہے ۔اس کے بعد وہی گاہک اسی دکاندار کو
کہتا ہے کہ اب یہ کپڑا دو سو پچاس روپیہ میں خرید لو او ردکاندار اس کپڑے کو خرید
لیتا ہے اور ڈھائی سو روپیہ گاہک کو ادا کردیتا ہے۔ کیا یہ خریدو فروخت صحیح ہے یا
یہ سود ہے؟ اور اگرصحیح نہیں ہے تو کس طرح ؟ (۲)بازار میں موٹر سائیکل
پچاس ہزار میں دستیاب ہے۔ گاہک دکاندار سے کہتاہے کہ میں یہ رقم یک مشت ادا نہیں
کرسکتا، میں اس کی طے شدہ قیمت ایک ساتھ میں ادا کروں گا۔ دکاندار وہی موٹر سائیکل
جو پچاس ہزار روپیہ میں ہے گاہک کو ایک لاکھ روپیہ میں فروخت کردیتا ہے اور پچیس
ہزارروپیہ بطور ایڈوانس لے کر بقیہ رقم کی پندرہ قسط (پندرہ ہزار روپیہ ماہانہ)
بنا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ دکاندار شرط رکھتا ہے کہ اگر ایک سے زیادہ قسط مقررہ وقت
پر جمع نہ کرائی گئی تو وہ موٹر سائیکل اور جمع کرائی گئی تمام رقم (ایڈوانس او
رقسطوں سمیت) ضبط کرلے گا۔ ..........
ایک دوست نے مجھے یہ کہہ کر رقم دی کہ آپ اسے جس کو اور جسے چاہیں تجارت کے لیے دیدیں اور جو آمدنی ہو اسے مدرسہ میں دیتے رہیں۔ اگر تجارت میں نقصان ہوجائے یا تجارت ہوجائے تو بقیہ رقم شراکت کے شرعی اصول کے مطابق لو ٹا دیں یعنی مدرسہ میں جمع کر دیں تو کیا میں اس رقم سے تجارت کر سکتا ہوں اور آدھا منافع شراکت کے لے سکتا ہوں؟ شرعی حکم کیا ہے؟
1500 مناظر