• معاشرت >> نکاح

    سوال نمبر: 156190

    عنوان: نکاح کے بعد اپنی بیوی کو رخصتی کے بغیر اپنے والدین سے چھپا کر اپنے پاس بلانا

    سوال: (۱) حضرت، میرا سوال یہ ہے کہ میں نے والدین کی مرضی سے اپنی پسند کا نکاح کیا، میرے نکاح میں میرے والدین اور کچھ رشتہ دار اور دوست شامل ہوئے، کچھ عرصہ بعد میں نے بغیر بتائے اپنے بیوی کو والدین سے چھپا کر رخصتی کے بغیر اپنے پاس باہر بلا لیا اور سارے تعلقات قائم کئے جو ایک میاں بیوی کے درمیان ہوتے ہیں، کیا میرا یہ عمل جائز ہے نکاح کے بعد تعلقات قائم کرنا؟ (۲) اور دوسرا کیا میرا یہ عمل والدین کی نافرمانی میں آئے گا کہ بغیر بتائے بیوی کو اپنے پاس بلانا؟ (۳) اور تیسرا یہ کہ اس بات کا کچھ عرصہ بعد میرے والدین کو پتا چل گیا کہ میں نے اپنی بیوی کو اپنے پاس بلایا تھا، ہمارے گھر بہت فساد ہوا اِس بات کو لے کر، میں نے والدین کے پاوٴں پکڑ کر رو کر اس بات کی معافی مانگی اور میرے والدین نے مجھے معاف بھی کر دیا، لیکن کچھ ہی دن بعد میرے والدین مجھے یہ کہنے لگے کہ اس کو طلاق دے دو یہ ہمارے گھر نہیں بس سکتی اس کو طلاق دو، اور بہت شدت سے اس چیز کا مطالبہ شروع کر دیا، میں اپنی بیوی سے پیار کرتا ہوں اور اسے طلاق نہیں دینا چاہتا کیونکہ ہم میاں بیوی اپنے رشتہ سے خوش اور مطمئن ہیں لیکن میرے والدین چاہتے ہیں کہ میں اس کو طلاق دوں، اگر میں اپنی بیوی کو طلاق نہیں دیتا ہوں تو کیا میرا یہ عمل والدین کی نافرمانی میںآ ئے گا؟ براہ کرم، پورے معاملے کا تسلی بخش جواب دیں۔ شکریہ

    جواب نمبر: 156190

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 181-155/D=2/1439

    (۱) جی ہاں جائز تھا، نکاح ہو جانے کے بعد بلا کسی مجبوری کے اس میں تاخیر کرنا مناسب نہیں۔

    (۲) نافرمانی میں نہیں آئے گا کیونکہ نکاح کے بعد اب زوجین کا خود حق ایک دوسرے سے متعلق ہوگیا جس کی ادائیگی خود ان کی ذمہ داری بنتی ہے باقی عرف کے مطابق اگر والدین کے علم میں لے آتے اور ان کی منشاء رخصتی میں شامل کرلیتے تو بہتر تھا لیکن وہ بھی اس حد تک کہ بیوی کے حق کی تفویت نہ ہو۔

    (۳) اگر بیوی میں کوئی اخلاقی خرابی نہیں ہے تو محض والدین کے کہنے پر طلاق دینا جائز ہیں۔ والدین کی جانب سے طلاق دینے کا مطالبہ اگر معقول اور شرعاً معتبر وجہ سے نہیں ہے تو والدین کا کہنا نہ ماننے سے لڑکا نافرمان نہیں ہوگا۔ البتہ یہ ملحوظ رہے کہ بیوی کے کھانے کپڑے اور رہائش کا حسب حیثیت انتظام کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے۔ بہشتی زیور اختری کے گیارہویں حصے کے بالکل آخر میں ایک مختصر رسالہ ”تعدیل حقوق الوالدین“شامل ہے اس میں بیوی اور والدین کے حقوق کا توازن ذکر کیا گیا ہے مزید تشفی کے لیے اس کا مطالعہ کرلیا جائے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند