معاشرت >> نکاح
سوال نمبر: 2372
کسی لڑکی کے نکاح میں ولی كی كیا ذمہ داری ہوتی ہے؟
براہ کرم، درج ذیل سوال کا قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔
(۱) کسی لڑکی کے نکاح میں ولی کا کیا کردار ہوتا ہے؟ اس سلسلے میں حنفی فقہاء کا نقطہٴ نظر کیا ہے؟لڑکی کے فیصلہٴ نکاح میں ولی کس حد تک مخل ہوسکتا ہے؟
(۲) براہ کرم، کفو کی اصطلاح کی تشریح فرمائیں۔ اسلام کے مطابق کسی عورت کا قانونی اور مناسب رشتہ کون/کیا ہوگا؟
(۳) کیا ایسا نکاح جائز ہوگا جس میں لڑکی پر زبردستی کی گئی ہو (اسے دھمکایا گیا ہو یا جذباتی طور پر اسے بلیک میل کیا گیا ہو)، حالاں کہ لڑکی دل سے اس لڑکے کو قبول کرنے اور اس سے شادی پر تیار نہ تھی؟کیا کسی کا زبردستی نکاح کردینا درست ہے؟
(۴) اگر لڑکا ایجاب کرے اور لڑکی اسے قبول نہ کرے، لیکن گواہوں کے سامنے زبردستی اس سے نکاح نامہ پر دستخط لے لیا جائے ، تو اس طرح نکاح مکمل سمجھا جائے گا؟کیا لڑکی کا سکوت اس کی رضا سمجھا جائے گا حالاں کہ وہ لڑکے کے ایجاب کو قبول نہیں کررہی ہے۔
(۵) ہندوستان میں سید اعلی درجہ کے مسلمان سمجھے جاتے ہیں کیوں کہ ان کا نسب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟کیا کسی لڑکے کی پیشکش محض اس وجہ سے ٹھکرادینا درست ہے کہ وہ سید نہیں ہے؟ کسی قابل احترام مسلمان کو کمتر سمجھنا اور شادی کے لائق نہ سمجھنا محض اس لیے کہ وہ کسی مخصوص برادری کا نہیں ، حالاں کہ اس کا دین مضبوط ہو، کیا درست ہے؟کیا اسلام مسلمانوں میں برادری، رنگ ، دولت اور خاندانی مرتبہ کی بنیاد پر تفریق کرتا ہے؟ ذاتی رائے اور انفرادی عصبیت سے پاک جواب کے لیے میں شکرگزار ہوں گی۔ اگر اس درخواست سے کوئی گستاخی ہوگئی ہو تو معاف فرمائیں گے۔ یہ میں اس لیے کہہ رہی ہوں کہ بسا اوقات میرے سوالات کا جواب ذاتی رائے سے دیا گیا اور قرآن حکیم سے نہیں دیا گیا۔ جزاکم اللہ و غفر لنا وایاکم!
جواب نمبر: 2372
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 416/ د= 416/د
(۱) لڑکی کے ولی اس کے باپ دادا بھائی چچا وغیرہ ہوتے ہیں ترتیب مذکور سے ان کو ولایت حاصل ہوتی ہے بالغ لڑکی اپنا نکاح کفو میں مہر مثل پر خود کرسکتی ہے نکاح جائز ہوجاتا ہے مگر بغیر ولی کے مشورہ کے از خود ایسا اقدام کرنا عرفا پسندیدہ نہیں ہے۔ اگر لڑکی غیر کفو میں ازخود نکاح کرلے تو ولی کو اعتراض کرکے اس نکاح کو فسخ کرادینے کا اختیار ہوتا ہے۔
(۲) کفو کہتے ہیں برابری کو، لڑکی کے سلسلہ میں شریعت نے کفو کا لحاظ کیا ہے جن چیزوں کا تعلق مزاج و طبیعت کے بننے اور امور خانہ میں توافق سے ہے نیز جس چیز میں کمی عرفاً عار کا باعث سمجھی جاتی ہے اس میں برابری کا خیال کرنا ضروری ہے، مثلاً شیوخ و سادات کے خاندان جن کے نسب نامے محفوظ و مستند ہیں آپس میں برابری۔ ان کے علاوہ دوسرے خاندانوں میں پیشہ کے لحاظ سے مساوات کا خیال رکھا جائے گا۔ مال و دولت اور دین داری میں بھی کفو کا لحاظ ہے، مثلاً شریف گھرانے کی لڑکی ایسے لڑکے کی کفو نہیں ہے جو فاسق و شرابی ہو، بہت مال دار گھرانہ کی لڑکی بہت غریب لڑکے کی کفو نہیں جو لڑکی کا مہر اور نفقہ بھی ادا نہ کرسکے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر غیر کفو میں ولی نکاح کردے تو لڑکی کے لیے باعث عار نہ ہوجائے اور اگر لڑکی ازخود کرلے تو اس کے خاندان والوں کو ننگ وعار محسوس نہ ہو۔ زوجین کے مابین خوش گوار تعلق اور دونوں کے مزاج و طبیعت میں موافقت پیدا کرکے اچھی زندگی گذارنے کے لیے کفاء ت کا اعتبار کیا گیا ہے۔ کسی مسلمان کو محض ذات برادری کی وجہ سے حقیر و کمتر سمجھنا یا اپنی برادری و خاندان پر فخر و تکبر کرنا حرام ہے، جو کسی طرح جائز نہیں ہے۔
(۳) اگر لڑکی نے اجازت لیے جانے کے وقت زبان سے انکار نہیں کیا صرف خاموش رہی یا ہاں کہہ دیا تو نکاح درست ہوگیا۔
(۴) لڑکی سے اجازت لینے والے اگر اس کے باپ دادا چچا بھائی یا ان کا وکیل اور قاصد ہے تو خاموش رہنے سے بھی نکاح ہوجائے گا، عدم رضا کی صورت میں اسے انکار کردینا چاہیے۔
(۵) کسی مسلمان کو خواہ کسی برادری اور خاندان کا ہو حقیر سمجھنا جائز نہیں ہے اور اس کے مقابلہ میں اپنے خاندان پر فخر و تکبر کرنا حرام ہے، اس نیت سے کسی رشتہ کو ٹھکرانا گناہ ہے، البتہ کفو میں جو شرعی مصلحت ہے اس کا خیال کرکے خوش اسلوبی سے معذرت کردینے میں حرج نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ ہم نے تم کو مختلف قبیلوں اور خاندانوں میں بانٹ دیا تاکہ اس کے ذریعہ ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ متقی ہے۔ نیز حدیث میں ہے: ألا لا یزوج النساء إلا الأولیاء ولا یزوجن إلا من أکفاء یعنی عورتوں کا نکاح ان کے ولی کریں اور ان کا نکاح کفو میں کیا جائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند