• عقائد و ایمانیات >> اسلامی عقائد

    سوال نمبر: 159809

    عنوان: ایك روایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم كے نور ہونے پر استدلال اور اس كا جواب

    سوال: حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نور ہونے کی دلیل میں بریلوی حضرات حدیث بیان کرتے ہیں جو حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) فرماتے ہیں کہ ”اے جابر ! اللہ نے سب سے پہلے تیرے نبی کے نور کو پیدا کیا“ یعنی حضور کی حیثیت نور ہے تو اس حدیث کے بارے میں علمائے دیوبند کی کیا رائے ہے؟

    جواب نمبر: 159809

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:844-77T/L=7/1439

     صورتِ مسئولہ میں بریلوی حضرات کا اس حدیث سے استدلال کرنا درست نہیں؛کیونکہ یہ حدیث بعض کتب میں بحوالہ عبدالرزاق رحمہ اللہ نقل کیا ہے، البتہ انھوں نے اس بات کی صراحت نہیں کی کہ عبدالرزاق رحمہ اللہ نے اپنی کس کتاب میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے اس حدیث کی سند بھی کسی نے ذکر نہیں کی، اس لیے بہت سے محققین اس حدیث کو غیر ثابت تسلیم کرتے ہیں؛ چنانچہ ماضی قریب کے عظیم محقق شیخ عبدالفتاح ابوغدہ الحلبی رحمہ اللہ نے التعلیقات الحافلہ علی الاجوبة الفاضلة میں اپنے شیخ علامہ احمد بن الصدیق الغماری رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے المغیر علی الاحادیث الموضوعہ فی الجامع الصغیر کے مقدمہ میں اس کو موضوع قراردیا ہے۔ یقول الشیخ الغماري: وہو حدیث موضوع لو ذکر بتمامہ لما شک الواقف علیہ في وضعہ وبقیتہ تقع في نحو ورقتین من القطع الکبیر مشتملة علی ألفاظ رکیکة ومعاني منکرة (التعلیقات الحافلة علی الأجوبة الفاضلة، ۱۲۹)ولمزید من التفصیل راجع( الیواقیت الغالیہ: ۲/۲۰۷)یہ تو حدیث کا جواب ہوا اس کے علاوہ خود قرآن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر ہونے کی صراحت مذکور ہے ۔”قل إنما أنا بشر مثلکم“ (میں تمہاری طرح ایک انسان ہوں) اور ”لقد جائکم رسول من أنفسکم“ (تحقیق کہ تمھارے پاس تمھاری جنس سے ایک رسول آچکا ہے) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں بشر ہونے کے جملہ لوازمات مثلاً کھانا پینا، نکاح کرنا وغیرہ پائے جاتے تھے، اسی طرح مسند احمد بن حنبلوغیرہ کی روایت میں آپ علیہ السلام کا سایہ ہونا بھی مذکور ہے، اس اعتبار سے آپ بشر تھے۔ قالت: بینما أنا یومًا بنصف النہار إذ أنا بظل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقبل (مسند أحمد: ۶/۱۳۲) اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ”حادی الأرواح إلی بلاد الأفراح“ میں ہے جس میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہٴ مبارک کو خود ملاحظہ فرمانا منقول ہے، یہ دونوں روایتیں مرفوع ہیں،علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نور کہہ کر بشریت کا انکار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشریت کے اعلی مقام سے گراکر اس سے کم درجہ کی مخلوق میں داخل کرنا ہے ،بشریت اور رسالت میں تضاد کفار کا عقیدہ تھا وہ کہتے تھے کہ رسول فرشتہ ہی ہو سکتا ہے،اللہ تعالی نے ان کے اس غلط عقیدہ کی قرآن کریم میں جا بجا تردید فرمائی ہے،بایں وجوہ اہلِ بدعت کا آپ کو نور کہنا درست نہیں۔

    البتہ نور کے معنی روشنی کے ہیں اور روشنی چونکہ خود بھی ظاہر ہوتی ہے اوردوسرے اشیاء کو بھی روشن اور ظاہر کردیتی ہے اس لیے نور کے التزامی معنی ہیں الظاہر المظہر اسی مناسبت سے حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کو بھی نور کہا جاتا ہے کہ وہ خود بھی ہدایت پر ہوتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی وصول الی اللہ کے راستوں کو ظاہر کرنے والے اور صراطِ مستقیم کی ہدایت کرنے والے ہوتے ہیں، اس معنی کے اعتبار سے آپ نور بھی ہیں؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نور کہہ کر بشریت کا انکاریہ نصوص کا انکار ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند