• معاملات >> بیع و تجارت

    سوال نمبر: 2576

    عنوان: ہنڈی کا طریقہ درست ہے یا نہیں؟

    سوال:

    میں ہنڈی (حوالہ ) کے جواز کے بارے میں جاننا چاہتاہوں۔ ہندی کی وضاحت یہ ہے کہ اگر کوئی کسی ملک مثلا سعودی عرب سے انڈیا روپئے بھیجنا چاہے تو وہ سعودی عرب کے ایجنٹ کو دیدیتاہے، اب وہ ایجنٹ اپنے ہندستانی ایجنٹ کو بھیج دیتاہے، اور اب یہ ہندستانی ایجنٹ مطلوب شخص کو وہ رقم دیدیتاہے ۔ تو کیا اسلامی نقطہ نظر سے یہ تجارت جائزہے یا نہیں؟ کیوں کہ ہندستانی اور سعودی عرب کے پینل کوڈ کے مطابق یہ بزنس غیر قانونی ہے ۔ حکومت کہتی ہے کہ یہ بزنس غیر قانونی ہے چونکہ اس سے جو منافع ہوگاوہ بزنس کرنے والوں کو ملے گاجبکہ اگر کوئی بینک کے ذریعہ روپئے بھیجتا ہے تو بینک کو کمیشن ملے گا، بینک یا توحکومت کے ہوتے ہیں یا حکومت سے ملحق ہوتے ہیں ۔ آصل بات یہ ہے کہ ویسٹرن یونین (Western Union) کے ذریعہ روپئے بھیجتے ہیں تو کسی ملک کو کوئی اعتراض نہیں ہوتاہے اس لیے کہ  ویسٹرن یونین کے پاس لائسینس ہے اور یہ ایک امریکی کمپنی ہے۔ ویسٹرن یونین اور ہندی /حوالہ دونوں کا ایک ہی طریقہ ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ ہند ی غیر لائسنیس شدہ ہے اور لوگوں کے لیے سستابھی۔ اور ویسٹرن یونین اور دوسرے بینک لائسنیس شدہ ہیں اور مہنگا بھی۔ براہ کرم، اس پر تفصیلی روشنی ڈالیں۔

    جواب نمبر: 2576

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 34/ ب= 34/ ب

     

    آپ نے ہنڈی (حوالہ) بھیجنے کی تجارت سے تعبیر کی ہے۔ کیا دوسروں کا پیسہ پہنچانے میں اجرت یا کمیشن وغیرہ لتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو اس کی تفصیل او رنوعیت او رطریقہٴ کار وضاحت کے ساتھ لکھئے؟ کس حساب سے اور کس طرح اور کب اور کتنا لیتے ہیں؟ اس کام کے لیے کیا عمل، محنت اور بھاگ دوڑ کرتے ہیں؟


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند