معاملات >> بیع و تجارت
سوال نمبر: 610295
مفتی صاحب- میں ایک کمپنی میں ملازمت کرتا ہوں، اور ساتھ ساتھ کچھ چھوٹے موٹے کاروبار بھی چل رہے ہیں۔ جو کہ میرے سیٹھ صاحب کے علم میں بھی ہیں اور ان کی طرف سے اجازت بھی ہے کہ ملازمت کے اوقات میں اپنے ذاتی کاروباری کام کر سکتا ہوں۔ ملازمت میں جہاں میرے ذمے بہت سارے کام ہیں وہاں ایک کام کمپنی کے کلائیٹ کے لیے خریداری بھی ہے۔ جب میں مارکیٹ سے خریداری کے لیے جاتا ہوں تو وہاں موجود سینکڑوں دکانوں میں ایک دکان میری بھی ہے۔ کیا میں مارکیٹ میں موجود سینکڑوں دوکانوں میں سے اپنی دوکان سے (وہی چیز اسی کوالٹی کی جو میری ملازمت والی کمپنی کو ضرورت ہے) خرید کر دے سکتا ہوں، مارکیٹ ریٹ یا مارکیٹ سے کم ریٹ میں؟ اور اگر میں اپنے سیٹھ صاحب کے علم میں نہیں ڈالتا تو کیا میرے لیے یہ جائز ہے؟
نوٹ: کمپنی میں موجود سب لوگوں کی حسد، نظراور بدگمانی سے بچنے کے لیۓ میں نہیں چاہتا کہ کسی کو بھی میرے اس کاروبار کا علم ہو جس وجہ سے کسی کو بھی بتانا نہیں چاہتا۔ کمپنی کے لیے خریداری سے فراہمی تک کولٹی اور ریٹ کا خاص خیال رکھتا ہوں۔ شریعت کی روشنی میں بتائیں کہ کیا میرا یہ کام جائز اور میری روزی حلال ہے؟
جواب نمبر: 610295
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 934-116/TB-8/1443
صورت میں آپ كمپنی كےوكیل بالشراء ہیں، اور وكیل بالبیع والشراء كے لیے خود سے ہی معاملہ كرنا شرعا جائز نہیں ہے، خواہ كم قیمت پر كرے یا زیادہ قیمت پر، كوالٹی اچھی ہو یا خراب؛ لہذا آپ اس سے بچیں ۔
(1488) (لوباع الوكيل بالشراء ماله لموكله لا يصح). ليس للوكيل بالشراء أن يشتري للموكل أربعة أنواع من الأموال:1 - ليس للوكيل بالشراء أن يشتري ماله لموكله، يعني لو اشترى الوكيل بالشراء مال نفسه لموكله لا يصح شراؤه، ولو قال: له: اشتر مال نفسك لي؛ لأن الشخص الواحد ليس له أن يتولى طرفي العقد انظر شرح المادة (167) .[درر الحكام في شرح مجلة الأحكام 3/ 599،الناشر: دار الجيل] نیز دیكھیں: بہشتی زیور اختری،5/35)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند