• معاشرت >> عورتوں کے مسائل

    سوال نمبر: 607627

    عنوان:

    مانع حمل تدبیر اختیار کرنا یا دوا کھانا یا حمل ٹھہرنے کے بعد اس کا اسقاط کرانا

    سوال:

    سوال : امید کہ آپ حضرات بخیر ہوں گے ، ہمارے سات بچے ہیں، اور ایک ماہ کا حمل ہے ، بڑا بچہ 19 سال کا ہے ، اور چھوٹا ایک سال کا جو ماں کا دودھ لے رہا ہے ، 1 سال سے 11 سال کے بیچ 6 بچے ہیں، 6 بچے ایک ہی utras (یوٹرس )سے ہیں اس لئے کہ پہلے بچے کے بعد ایک یوٹرس نکالنا پڑا تھا، اہلیہ کی طبیعت اکثر خراب رہتی ہے ، تھائرائڈ، سانس، بدن کا پھولنا کئی بیمار یاں ہیں، جن کا صحیح اور مکمل علاج مستقل بچوں کے ہونے کی وجہ سے نہیں ہو پا رہا ہے ، بچے چھوٹے ہونے کی وجہ سے اور مستقل ہونے کی وجہ سے ان کی تربیت بھی صحیح نہیں ہو پا رہی ہے ، نیز ہمارے دین اور دین کی محنت میں وقت نکالنے کے اعتبار سے دقت آ رہی ہے ، ان تمام صورتحال میں کیا اسقاط حمل جائز ہے ؟ اور حمل نہ ٹھہرنے کی دوائیں وغیرہ جو لیتے ہیں، کیا لینا ان حالات میں درست ہے ؟ ہم کوئی بھی غیر شرعی عمل کرنا نہیں چاہتے ہیں، اس لئے آپ حضرات سے یہ مسئلہ معلوم کر رہے ہیں تاکہ اس کی روشنی میں عمل ہو۔ رہنمائی فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا

    جواب نمبر: 607627

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 431-307/D=04/1443

     بچہ ٹھہر جانے کے بعد رزق کی تنگی کے ڈر سے اس کا اسقاط کرانا گناہ اور ناجائز ہے اگر رزق کی تنگی اور خوش عیشی کی غرض سے نہ ہو بلکہ ماہر ڈاکٹر کی تجویز سے گود کے بچہ کے لیے نقصان دہ ہونے یا حاملہ کو ضرر شدید پہونچنے کا اندیشہ ہو تو اسقاط کرانے کی گنجائش ہے۔

    (۲) بوقت ضرورت مثلاً سوال مذکور صورت حال میں مانع حمل دوائیں کھانے یا وقتی طور پر مانع حمل تدبیر اختیار کرنے کی اجازت ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند