• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 610362

    عنوان:

    قرآنی آیات پر مشتمل تعویذ پہن کر باتھ روم جانا

    سوال:

    میرا سوال یہ ہے کہ جو لوگ قرآنی آیات کی مُہر بناتے ہیں پھر اس کے ذریعہ لوگوں کو تعویز دیتے ہیں اور لوگ احتیاط نہیں کرتے ہیں مثلا بے وضو اس کو چھوتے ہیں اور گلے میں ڈالا رہتا ہے ایسے ہی باتھ روم جاتےہیں اور بھی بہت قرآنی آیات کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ برائے مہربانی اس بارے میں روشنی ڈالیں۔

    جواب نمبر: 610362

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa: 582-226/TD-Mulhaqa=8/1443

     تعویذ میں لکھی ہوئی قرآنی آیات اگر کسی کپڑے وغیرہ میں لپٹی ہوئی ہو، جیساکہ عموماپہننے والا تعویذ ایسی ہی ہوتاہے تو اس کو پہن کو باتھ روم میں جا نے کی گنجائش ہے اور کپڑے سے اوپر اس کو بلا وضوء مس بھی کیا جاسکتا ہے؛البتہ بہتر یہ ہے کہ باتھ روم جانے سے پہلے ایسے تعویذ کو نکال دیا جائے ، واضح رہے کہ تعویذ میں لکھی ہوئی قرآنی آیات کو کپڑے کے بغیر بلا وضوء چھونا جائز نہیں ہے، پس جو شخص قرآنی آیات کی تعویذ دیتا ہو، اس کو چاہیے کہ اس بارے میں شرعی حکم بھی اچھی طرح سمجھا دیا کرے، تاکہ قرآن کریم کی بے حرمتی نہ ہو ۔ قال الحصکفی : رقية في غلاف متجاف لم يكره دخول الخلاء به، والاحتراز أفضل.قال ابن عابدین : (قوله: رقية إلخ) الظاهر أن المراد بها ما يسمونه الآن بالهيكل والحمائلي المشتمل على الآيات القرآنية، فإذا كان غلافه منفصلا عنه كالمشمع ونحوه جاز دخول الخلاء به ومسه وحمله للجنب. ويستفاد منه أن ما كتب من الآيات بنية الدعاء والثناء لا يخرج عن كونه قرآنا، بخلاف قراءته بهذه النية فالنية تعمل في تغيير المنطوق لا المكتوب اهـ من شرح سيدي عبد الغني.( الدر المختار مع رد المحتار: ۱/۱۷۸، دار الفکر ، بیروت )


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند