عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم
سوال نمبر: 165437
جواب نمبر: 165437
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:32-28T/N=4/1440
(۱): جن متون میں تراویح میں ختم قرآن کا ذکر آیا ہے، ان میں اسے مطلق سنت سے ذکر کیا گیا ہے، سنت موٴکدہ یا غیر موٴکدہ کی صراحت نہیں کی گئی ہے؛ البتہ بعض کتابوں میں سنت کی صراحت کے ساتھ یہ بھی فرمایا گیا کہ لوگوں کی سستی کی وجہ سے ختم قرآن ترک نہیں کیا جائے گا، اس سے بہ ظاہر اس کا سنت موٴکدہ ہونا معلوم ہوتا ہے اگرچہ اس کا تاکد نماز تراویح سے کم ہو، مذہب اور جمہور احناف کا قول یہی ہے، یعنی: تراویح میں کم از کم ایک بار ختم قرآن سنت ہے؛ جب کہ بعض فقہائے احناف نے لوگوں کی رعایت کو افضل قرار دیا ہے؛ لیکن یہ قول ضعیف ہے۔ اور متون در اصل ظاہر الروایہ مسائل نقل کرنے کے لیے موضوع ہوتے ہیں۔
والسنة فیھا الختم مرة فلا یترک لکسل القوم (ملتقی الأبحر، کتاب الصلاة، ۱: ۲۰۳، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، السنة في التراویح إنما ھو الختم مرة فلا یترک لکسل القوم کذا في الکافي ( الفتاوی الھندیة، ۱: ۱۱۷، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)،والختم في التراویح مرة واحدة سنة ( الفتاوی الخانیة علی ھامش الفتاوی الھندیة، ۱: ۲۳۷، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)،وسن في رمضان عشرون رکعة بعد العشاء قبل الوتر وبعدہ بجماعة والختم مرة بجلسة الخ (کنز الدقائق مع البحر الرائق،،کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۳: ۱۱۵، ۱۱۶، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)،قولہ: والختم مرة“:معطوف علی ”عشرون“ بیان لسنة القراء ة فیھا وفیہ اختلاف، والجمھور علی أن السنة الختم مرة فلا یترک لکسل القوم (البحر الرائق،،کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۳: ۱۱۵، ۱۱۶، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، لأن السنة فیھا الختم مرة ……ولا یترک الختم مرة لکسل القوم بخلاف الدعوات في التشھد حیث یترک إذا عرف منھم الملل (تبیین الحقائق،کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۱: ۱۸۲، ط: المکتبة الإمدادیة، ملتان، باکستان)، وسن ختم القرآن فیھا مرة في الشھر علی الصحیح ( نور الإیضاح مع المراقي وحاشیة الطحطاوي علیہ، ص: ۴۱۴، ۴۱۵، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)،والسنة ختم القرآن في التراویح مرة واحدة(المختار مع الاختیار، ۱: ۲۳۹، ط: موٴسسة الرسالة)، والحاصل أن السنة في التراویح إنما ھي الختم مرة، والختم مرتین فضیلة والختم ثلاث مرات في کل عشرة مرة أفضل، وفي جامع الجوامع: الأفضل أن یختم فیہ القرآن إن لم یثقل علی القوم، وفي الکافي: والجمھور علی أن السنة الختم مرة فلا یترک لکسل القوم(الفتاوی التاتارخانیة، ۲: ۳۲۴ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قال الصدر الشھید:الختم في التراویح سنة والختمان فضیلة الخ (خلاصة الفتاوی ، ۱: ۶۴، ط: المکتبة الرشیدیة، کوئتة)، وسن الختم مرة ولا یترک لکسل القوم(النقایة مع شرح النقایة، ۱: ۳۴۵،۳۴۶)، (وسن الختم) أي: ختم القرآن علی الأصح وھو قول الأکثر (مرة) في صلاة التراویح؛ لأن شھر رمضان أنزل فیہ القرآن وکان النبي صلی اللہ علیہ وسلم یعرضہ فیہ علی جبرائیل کل سنة مرة، وفي السنة الأخیرة عرضہ مرتین الخ (ولا یترک) الختم (لکسل القوم)(فتح باب العنایة بشرح النقایة، ۱: ۳۴۵،۳۴۶)، قولہ: ”والختم مرة سنة “:أي: قراء ة الختم في صلاة التراویح سنة وصححہ في الخانیة وغیرھا وعزاہ في الھدایة إلی أکثر المشایخ، وفي الکافي إلی الجمہور، وفي البرھان: وھو المروي عن أبي حنیفة والمنقول في الآثار ( رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲:۴۹۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قال في البحر: فالمصحح في المذھب أن الختم سنة (المصدر السابق، ص: ۴۹۸)، (وقیل) القائل صاحب الاختیار (الأفضل في زماننا قدر مالا یثقل علیھم) (الغرر والدرر مع الغنیة للشرنبلالي،۱: ۱۲۰،ط: باکستان)، قولہ: ”وقیل القائل صاحب الاختیار الخ“: أقول: عبارتہ تفید ضعفہ وفی البحر خلافہ والجمہور علی أن السنة الختم (غنیة ذوي الأحکام في بغیة درر الحکام)۔
(۲): دیگر ائمہ کرام کا مسلک انہی کے دار الافتا یا مفتیان کرام سے معلوم کیا جائے، دار الافتا دار العلوم دیوبند سے صرف فقہ حنفی کے مطابق فتوی دیا جاتا ہے۔
(۳): اس کی صراحت کہیں نظر سے نہیں گذری۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند