• عقائد و ایمانیات >> قرآن کریم

    سوال نمبر: 165437

    عنوان: کیا تراویح میں ایک مرتبہ ختمِ قرآن سنت ِمؤکدہ ہے یا كچھ اور ؟

    سوال: سوال: 1. امام ابو حنیفہ اور صاحبین کے نزدیک تراویح میں ایک بار ختمِ قرآن کیا سنتِ مؤکدہ ہے یا سنتِ غیر مؤکدہ ؟ اور کیا یہ مسئلہ ظاہر الروایة میں منقول ہے َ اور اگر سنت مؤکدہ ہے جیسے کہ عام مشہور ہے تو اسکی دلیل کیا ہے ؟ حکیم الامت نے بھی اسی مسئلے کو امدا دالفتاویٰ (392/1) میں نقل کیا ہے الجواب: مجھ کو اس معاملہ میں دو تردد تھے ایک یہ کہ آیا ختم کا سنت موٴکدہ ہونا اصل مذہب ہے یاصرف مشائخ کاقول ہے مراجعت کتب فقہیہ سے یہ ثابت ہوا کہ یہ علماء احناف میں مختلف فیہ ہے اکثر کاقول تو تأکد ہی ہے بعض کا قول عدم تأکد بھی ہے اور منشاء اختلاف کا یہ سمجھ میں آیا کہ امام حسن نے امام صاحب سے اس کی سنیت نقل کی ہے من غیر تصریح بتأکدہا او عدمہ اکثر مشائخ نے اس کو سنت موٴکدہ سے مفسر کیا ہے اور بعض نے تأکد کی دلیل نہ ملنے سے مطلق سنت پر محمول کیا ولومستحباً۔ اسی واسطے بعض متون میں اس کی سنیت کو لیا ہے اور بعض میں مثل قدوری کے نہیں لیا پھر قائلین بالتأکد میں بھی متاخرین نے عذر کی حالت میں تأکد کو ساقط کردیا۔ ومنہ کسل القوم أو نحوہ۔ خانقاہ میں گاہ گاہ ختم نہ ہونا اسی قول عدم تأکد پر مبنی ہے خواہ یہ عدم تأکد اصل ہی سے ہو۔ خواہ کسی عذر سے ہو۔ اور عذر ہر ایک کاجدا ہے ۔ دوسراتردد یہ تھااور ہے کہ قائلین بالتاکد کی دلیل کیا ہے سو اسی کو میں متعد د علماء سے استفسار کیاکر تا ہوں جس سے مقصود تاکد کی نفی نہیں بلکہ اس پر طلب دلیل ہے اگر اس پر بھی اعتراض ہے تو اس اعتراض کا حاصل تو یہ ہوا کہ جو امر معلوم نہ ہو اس کوطلب نہ کرناچاہیے تو اہل انصاف خود ہی غور کرلیں کہ آیا دین میں طلب علم مقصود ہے یا بقاء علیٰ الجہل۔ اشرف علی ۲۴ شوال ۴۳ھء (ترجیح ۵ص۱۶۰) 2. آئمہ ثلاثہ ( امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد) کے نزدیک تراویح میں ایک بار ختمِ قرآن کیا سنتِ مؤکدہ ہے یا سنتِ غیر مؤکدہ یا مستحب ؟ قال الإمام مالک - رحمہ اللہ- کما فی المدونة ج۱ ص ۳۲۲: لیس ختم القرآن فی رمضان سنة للقیام. وقال الإمام ربیعة - رحمہ اللہ- فی ختم القرآن فی رمضان لقیام الناس لیست بسنة ، ولو أن رجلاً أم الناس بسورة حتی ینقضی الشہر لأجزأ ذلک عنہ، وأنی لأری أن قد کان یؤم الناس من لم یجمع القرآن... المدونة ج۱ ص ۴۲۲ 3. کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح میں ختم قرآن کیا تھا ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عمومی طور پر تراویح میں کتنا قرآن مجید پڑھتے تھے ؟ اور کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم تراویح میں پورا قرآن مجید اول سے آخر تک پڑھتے تھے ؟

    جواب نمبر: 165437

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa:32-28T/N=4/1440

    (۱): جن متون میں تراویح میں ختم قرآن کا ذکر آیا ہے، ان میں اسے مطلق سنت سے ذکر کیا گیا ہے، سنت موٴکدہ یا غیر موٴکدہ کی صراحت نہیں کی گئی ہے؛ البتہ بعض کتابوں میں سنت کی صراحت کے ساتھ یہ بھی فرمایا گیا کہ لوگوں کی سستی کی وجہ سے ختم قرآن ترک نہیں کیا جائے گا، اس سے بہ ظاہر اس کا سنت موٴکدہ ہونا معلوم ہوتا ہے اگرچہ اس کا تاکد نماز تراویح سے کم ہو، مذہب اور جمہور احناف کا قول یہی ہے، یعنی: تراویح میں کم از کم ایک بار ختم قرآن سنت ہے؛ جب کہ بعض فقہائے احناف نے لوگوں کی رعایت کو افضل قرار دیا ہے؛ لیکن یہ قول ضعیف ہے۔ اور متون در اصل ظاہر الروایہ مسائل نقل کرنے کے لیے موضوع ہوتے ہیں۔

    والسنة فیھا الختم مرة فلا یترک لکسل القوم (ملتقی الأبحر، کتاب الصلاة، ۱: ۲۰۳، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، السنة في التراویح إنما ھو الختم مرة فلا یترک لکسل القوم کذا في الکافي ( الفتاوی الھندیة، ۱: ۱۱۷، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)،والختم في التراویح مرة واحدة سنة ( الفتاوی الخانیة علی ھامش الفتاوی الھندیة، ۱: ۲۳۷، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)،وسن في رمضان عشرون رکعة بعد العشاء قبل الوتر وبعدہ بجماعة والختم مرة بجلسة الخ (کنز الدقائق مع البحر الرائق،،کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۳: ۱۱۵، ۱۱۶، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)،قولہ: والختم مرة“:معطوف علی ”عشرون“ بیان لسنة القراء ة فیھا وفیہ اختلاف، والجمھور علی أن السنة الختم مرة فلا یترک لکسل القوم (البحر الرائق،،کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۳: ۱۱۵، ۱۱۶، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)، لأن السنة فیھا الختم مرة ……ولا یترک الختم مرة لکسل القوم بخلاف الدعوات في التشھد حیث یترک إذا عرف منھم الملل (تبیین الحقائق،کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۱: ۱۸۲، ط: المکتبة الإمدادیة، ملتان، باکستان)، وسن ختم القرآن فیھا مرة في الشھر علی الصحیح ( نور الإیضاح مع المراقي وحاشیة الطحطاوي علیہ، ص: ۴۱۴، ۴۱۵، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)،والسنة ختم القرآن في التراویح مرة واحدة(المختار مع الاختیار، ۱: ۲۳۹، ط: موٴسسة الرسالة)، والحاصل أن السنة في التراویح إنما ھي الختم مرة، والختم مرتین فضیلة والختم ثلاث مرات في کل عشرة مرة أفضل، وفي جامع الجوامع: الأفضل أن یختم فیہ القرآن إن لم یثقل علی القوم، وفي الکافي: والجمھور علی أن السنة الختم مرة فلا یترک لکسل القوم(الفتاوی التاتارخانیة، ۲: ۳۲۴ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قال الصدر الشھید:الختم في التراویح سنة والختمان فضیلة الخ (خلاصة الفتاوی ، ۱: ۶۴، ط: المکتبة الرشیدیة، کوئتة)، وسن الختم مرة ولا یترک لکسل القوم(النقایة مع شرح النقایة، ۱: ۳۴۵،۳۴۶)، (وسن الختم) أي: ختم القرآن علی الأصح وھو قول الأکثر (مرة) في صلاة التراویح؛ لأن شھر رمضان أنزل فیہ القرآن وکان النبي صلی اللہ علیہ وسلم یعرضہ فیہ علی جبرائیل کل سنة مرة، وفي السنة الأخیرة عرضہ مرتین الخ (ولا یترک) الختم (لکسل القوم)(فتح باب العنایة بشرح النقایة، ۱: ۳۴۵،۳۴۶)، قولہ: ”والختم مرة سنة “:أي: قراء ة الختم في صلاة التراویح سنة وصححہ في الخانیة وغیرھا وعزاہ في الھدایة إلی أکثر المشایخ، وفي الکافي إلی الجمہور، وفي البرھان: وھو المروي عن أبي حنیفة والمنقول في الآثار ( رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ۲:۴۹۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قال في البحر: فالمصحح في المذھب أن الختم سنة (المصدر السابق، ص: ۴۹۸)، (وقیل) القائل صاحب الاختیار (الأفضل في زماننا قدر مالا یثقل علیھم) (الغرر والدرر مع الغنیة للشرنبلالي،۱: ۱۲۰،ط: باکستان)، قولہ: ”وقیل القائل صاحب الاختیار الخ“: أقول: عبارتہ تفید ضعفہ وفی البحر خلافہ والجمہور علی أن السنة الختم (غنیة ذوي الأحکام في بغیة درر الحکام)۔

    (۲): دیگر ائمہ کرام کا مسلک انہی کے دار الافتا یا مفتیان کرام سے معلوم کیا جائے، دار الافتا دار العلوم دیوبند سے صرف فقہ حنفی کے مطابق فتوی دیا جاتا ہے۔

    (۳): اس کی صراحت کہیں نظر سے نہیں گذری۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند