• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 43117

    عنوان: یہ جملہ بے اختیار نكل گیا

    سوال: میرانکاح کریم النساء صاحبہ سے 26/10/2009 کو ہوا ، شادی کے بعد ازدواجی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ، 1/2/2012 کو ایک لڑکا پیدا ہوا، 16/9/2012 کو ایک دفعہ جب میں مسجد کی طرف جارہا تھا، میرے دماغ میں سخت خلش جاری تھی اور میں نے اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں سوچ رہا تھا ، میں نے یہ سوچا کہ جب اہل جماعت کی موجودگی میں اگر میری بیوی میری باتوں کا انکار کرتی رہے گی اور میرے اوپر جھوٹے الزامات لگاتی رہے گی تو مجھے طلاق پکارنا پڑے گا اور یہ میری پہلی طلاق ہوئی، یہ سوچتے سوچتے اچانک میری زبان سے بھی نکال گیا کہ یہ میری پہلی طلاق ․․․․․․ہے، کہنے سے پہلے زبان رک گئی، جب باتیں ذہن میں سوچی جارہی تھی وہ حقیقت میں واقع نہیں ہوئی۔ اس وقت میں آئندہ کا لائحہٴ عمل طے کررہا تھا ، اپنی بیوی کو فی الفور طلاق دینے کا اراد نہیں تھا، کیا اس واقعہ سے میری بیوی پر طلاق واقع ہوئی؟ والسلام

    جواب نمبر: 43117

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 37-28/H=2/1434 تنہائی میں سوچتے سوچتے پہلے ذہن ودماغ میں یہ آیا کہ ”اگر میری بیوی․․․․ تو مجھے طلاق پکارنا پڑے گا اور یہ میری پہلی طلاق ہوئی“ اس طرح کے مضمون کو سوچنے سے کسی قسم کی طلاق واقع نہ ہوئی“ پھر سوچتے سوچتے جو زبان سے نکلا کہ یہ میری پہلی طلاق․․․ ہے کہنے سے پہلے زبان رک گئی“ اور یہ جملہ بے اختیار نکل گیا قصد وارادہ آپ کا طلاق دینے کا نہ تھا تو اس کا حکم یہ ہے کہ دیانةً یہ طلاق (زبان سے نکلا ہوا جملہٴ ناقصہ) بھی واقع نہ ہوئی۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند