• معاشرت >> طلاق و خلع

    سوال نمبر: 179731

    عنوان: صریح الفاظ میں ایك وقت تین طلاقیں دی گئیں تو كیا حكم ہے؟

    سوال:

    ایک وقت میں تین طلاق دینے کے بارے میں علماء کی رائے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ چندعلماء کے مطابق ایک وقت میں دی جانے والی تین طلاق ایک مانی جائے گی اور کچھ کے مطابق تین۔ بحرحال اگر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو یہی سامنے آتا ہے کہ دور رسالت میں ایک وقت میں دی جانے والی تین طلاق کو ایک ہی مانا جاتا تھا۔لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو انہوں نے اسے تین ماننے کا حکم جاری کر دیا۔ حکم کا مقصد نکاح جیسے مقدس رشتے کو بچانا تھا تاکہ لوگ تین طلاق کی طرف نہ جائیں۔ بعد میں علماء نے اسی حکم کو بنیاد بنا کر تین طلاق کو تین ہی ماننا شروع کر دیا۔ آج کے دور میں جب نوجوانوں میں غصہ اور لا ابالی بڑھ چکاہے ، وہ معمولی اختلاف یا غصہ کی وجہ سے ایک ہی وقت میں تین طلاق دے بیٹھتے ہیں اور بعد میں ہوش آنے پر پچھتاوہ ان کا مقدر بن جاتا ہے ۔ حالانکہ وہ اس رشتہ کو ختم نہیں کرنا چاہتے بلکہ صرف غصہ کی وجہ سے تین طلاق کہہ بیٹھتے ہیں، لیکن ان کے پاس اس رشتہ کو بچانے کا کوئی راستہ نہیں بچتا۔ قران و حدیث نے جب تین طلاق کا قانون وضع کیا تو اس کا مقصد یہی تھا کہ نکاح سے قائم ہونے والا یہ خوبصورت تعلق کسی معمولی بات سے ختم نہ ہو بلکہ نوجوانوں کے پاس اس رشتہ کو بچانے کے لیے تین مواقع موجود ہوں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کا مقصد بھی اس رشتہ کو مضبوط کرنا اور اسے ٹوٹنے سے بچانا تھا، ناکہ ختم کرنا۔ آج کل نوجوان اپنے لاابالی پن کی وجہ سے جب ایک ہی وقت میں تین طلاق دے بیٹھتے ہیں تو ان کے پاس اس رشتہ کو بچانے کے لئے کوئی رستہ نہیں بچتا جو کہ قرآن و حدیث کے مطابق ان کا حق تھا لیکن ہمارے علماء کے فتووں کی وجہ سے وہ اپنا گھر اجاڑ بیٹھتے ہیں۔ میری علمائے دیوبند سے یہ عرض ہے کہ موجودہ دور کے نوجوانوں کی لاابالی طبیعت کو مدنظر رکھتے ہوئے طلاق کے اس قانون پر نظرثانی کریں اور اسے دور رسالت کے مطابق ایک وقت میں دی جانے والی طلاق کو ایک ہی تصور کریں تاکہ نوجوان نکاح جیسے خوبصورت رشتہ کو بچا سکیں ورنہ معاشرے میں طلاق یافتہ خواتین کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ جائے گی جس سے بے راہ روی بڑھے گے اور معاشرہ تباہی کی طرف جائے گا۔ عالم اسلام کی عظیم الشان یونیورسٹی جامعہ الاظہر کا بھی اس سلسلے میں یہی موقف ہے کہ ایک وقت کی تین طلاق ایک ہی تصور ہو گی۔ امید ہے میری اس عرض پر علماء دیوبند اچھی طرح سوچ بچار کے بعد جواب دیں گے ۔

    جواب نمبر: 179731

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa : 20-10T/M=02/1442

     جمہور صحابہ و تابعین، ائمہ اربعہ متبوعین اور فقہاء و محدثین کا یہی موقف ہے کہ ایک وقت میں صریح الفاظ کے ساتھ مدخولہ بیوی کو تین طلاقیں دی جائیں تو تینوں واقع ہو جاتی ہیں اور زوجین کا ازدواجی رشتہ بالکلیہ ٹوٹ جاتا ہے اور یہ مسئلہ قرآن و سنت اور آثار صحابہ سے موٴید و مدلل ہے۔ اور اس مسئلے پر خوب اچھی طرح غور و خوض ہو چکا ہے ۔ سعودیہ کی تحقیقاتی کمیٹی بنام: ہیئة کبار العلماء کو مجلس میں بھی طلاق ثلثہ کا مسئلہ پیش ہوا مجلس نے اس مسئلے سے متعلق قرآن وحدیث کی نصوص کے علاوہ تفسیر و حدیث کی سینتالیس (47) کتابیں کھنگالنے اور سیر حاصل بحث کے بعد اکثریت کے ساتھ واضح الفاظ میں یہ فیصلہ دیا ہے کہ ایک لفظ سے دی گئی تین طلاقیں بھی تین ہیں (یہ پوری بحث و فیصلہ متفقہ: احسن الفتاوی جلد: ۵/ میں حکم الطلاق الثلاث بلفظ واحد کے عنوان سے موجود ہے، اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں) نوجوان لوگ اگر لاابالی پن کی وجہ سے یا غصے میں آکر تین طلاق دے بیٹھتے ہیں اور پھر ازدواجی رشتہ ختم ہو جانے پر پچھتاتے ہیں تو اس انجام بد کے ذمہ دار وہ خود اور ان کا طرز عمل ہے، اس میں علماء کا کیا قصور ہے، علماء تو حکم شرعی بتاکر اپنا فرض بنھاتے ہیں، لوگ نکاح و طلاق کے مسائل و احکام نہ جانتے ہیں نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں، نہ موقع پر شرعی اصول و آداب کی رعایت کرتے ہیں اور اُن کی اس غفلت و جہالت اور لااُبالی پن کے نتیجے میں جب نقصان ہو جاتا ہے تو پھر پچھتاتے پھرتے ہیں اس کے ذمہ دار وہ خود ہیں، اِس صورت حال کو بدلنے اور غفلت و جہالت سے نکلنے کی ضرورت ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند