معاشرت >> طلاق و خلع
سوال نمبر: 68018
جواب نمبر: 6801801-Sep-2020 : تاریخ اشاعت
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1358-1429/L=12/1437 صورت مسئولہ میں اگروہ شخص چالیس سال کی عمر سے پہلے نکاح کرتا ہے تو اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی اور وہ مغلظہ بائنہ ہوکر شوہر پر حرام ہو جائے گی؛ البتہ اگر کوئی شخص بحیثیت فضولی نہ کہ بحیثیت وکیل اس کا نکاح کرادے اور وہ شخص قولاً اجازت کے بدلے فعلاً اجازت دیدے مثلاً بیوی کے پاس مہر کا کل یا بعض حصہ ارسال کردے تو اس صورت میں نکاح بھی درست ہو جائے گا اور طلاق واقع نہ ہوگی جہاں تک عمر کا تعلق ہے تو اگر اس شخص نے بوقتِ قسم قمری یا شمسی جو بھی سال مراد لی ہوگی اس کا اعتبار ہوگا اور اگر اس نے کچھ بھی مراد نہ لیا ہو تو عرفاً جو شائع و ذائع ہو اس کا اعتبار ہوگا اور سال کے سال کے سلسلے میں عرفاً انگریزی سال مراد لیا جانا شائع و ذائع ہے اس لیے صورت مسئولہ میں عدمِ نیت کی صورت میں چالیس سال انگریزی مراد ہوں گے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
عرض یہ ہے کہ ایک عورت عدت میں ہے اور اس
کی ایک قریبی رشتہ دار کو ملنے کے لیے جانا چاہتی ہے۔
اگر قریبی رشتہ دار بہن ہو اور بیماری موت
اور حیات کی کشمکش والی ہو تو اس صورت میں دیکھنے اول ملنے کے لیے جانے میں گنجائش
ہے؟
حضرت
میری شادی دو سال پہلے ہوئی تھی ہم دونوں میں بہت پیار تھا میں کویت میں نوکری
کرتاہوں میرے دشمنوں نے میری بیوی کو کچھ کروا دیا اور اس نے مجھ سے طلاق دینے کو
کہا، لیکن میں نے اس کو منع کیا، مگر میری سسرال والے مجھے فون پر دھمکی دینے لگے
کہ ہم تم سب کو تھانے میں بند کروادیں گے۔ ان کی دھمکی میں آکر میں نے ایک بار ان
کو فون پر طلاق بولا۔ اس وقت وہاں میرے والد اور کچھ لوگ تھے ،اور میرے سسرال والوں
نے ایک پیپر پر میرے والد صاحب سے دستخط لے لیا۔ لیکن میں نے ایک دن بعد اپنی بیوی
کو فون کیا اس نے مجھ سے بات نہیں کی۔ میں اس کو روز ایس ایم ایس کرتاہوں کہ مجھ
سے بات کرو مگر وہ بات نہیں کرتی۔ اس بات کو ایک سال ہوگیا ہے، میں اس کو بہت پیار
کرتاہوں اس کے بنا نہیں رہ سکتا ۔آپ مجھے اس کا جواب دیں کہ یہ طلاق ہوئی یا نہیں
،میں نے مہربھی ادا کردی ہے؟
میری
محبت کی شادی ہوئی تھی۔ لیکن میری بیوی مجھ سے طلاق چاہتی ہے، جب کہ میں اسے طلاق
نہیں دینا چاہتا۔ کئی مہینوں سے وہ مجھ سے الگ رہ رہی ہے۔ وہ مجھ سے ہمیشہ طلاق کے
لیے بحث کرتی تھی۔ اس نے بحث کے درمیان مجھ پر سے مہر بھی معاف کردئے تھے۔ میں نے
اس سے یہ جملے بحث کے درمیان الگ الگ وقت پر کہے تھے (۱) [تم آزاد ہو]۔ (۲)[تم آزاد ہو،میں نے تجھے
باندھ کر نہیں رکھا ہے]۔(۳)[تم
آزاد ہو جہاں کہیں شادی کرنا چاہتی ہو کرسکتی ہو]۔ ان سب میں میری نیت کبھی بھی
طلاق دینے کی نہیں تھی۔ وہ مجھ سے کہتی تھی تم مجھے لفظ طلاق بھی کہہ دو۔ میں نے
اس سے کہا تھا [میں یہ لفظ نہیں کہہ سکتا]۔ اب وہ مجھ سے کہتی ہے کہ ہمارا صریح
طلاق بائن مغلظہ ہوگیا ہے، کیوں کہ [تم آزاد ہو] سے بھی طلاق صریح ہوجاتی ہے اگر
بحث کا موضوع طلاق ہے۔تو میں نے اس سے کہا تھا کہ [اگر ایسا ہوتا ہے ([تم آزاد ہو]
کہنے سے اور بنا لفظ طلاق کہے طلاق ہوجاتا ہو تو میں مان لوں گا (کہ طلاق ہوگیا
ہے)۔[تم آزاد ہو، میں نے تجھے باندھ کر نہیں رکھا ہے]۔میں اب بھی کہتا ہوں او رتمہیں
پچاس بار کہنے کو تیار ہوں۔ حضرت بتائیں کہ کیا سچ مچ ہمارا طلاق ہوگیا ہے؟ اگر
ہاں، تو یہ بھی بتائیں کہ ہمارے درمیان کتنے اورکن کن طرح (صریح/کنایہ/بائن/رجعی)
کے طلاق ہو چکے ہیں (حالانکہ زیادہ سے زیادہ تین ہی ہوسکتا ہے) او رکن کن جگہ
(الفاظ سے) ہوا ہے؟ میں ساتھ رہنا چاہتاہوں کیا یہ درست ہے؟ والسلام
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ میں نے اپنی بیوی کو غصہ اور ٹینشن کی حالت میں ایک مجلس میں چھ مرتبہ (میں نے طلاق دیدی) کہا۔ کیا اس صورت میں میری بیوی کو شرعی اعتبار سے مکمل طلاق واقع ہوگئی؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ تین طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔ برائے کرم شریعت کی روشنی میں مکمل اورمدلل جواب عنایت فرمائیں،عین نوازش ہوگی۔
2332 مناظر