• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 7093

    عنوان:

    حال ہی میں میں مسلمانوں کی ایک چھوٹی قوم کے پاس آیا۔ اس جگہ نہ تو کوئی عالم ہے اورنہ ہی کوئی حافظ۔یہاں کے مسلمانوں نے مجھے یہاں کی چھوٹی سی مسجد کا جو کہ یہاں پر ہے اس کا امام مقرر کردیا، کیوں کہ صرف میں ہی ایک ایسا مسلمان ہوں جوکہ سنتی لباس پہنتا ہوں اور پوری داڑھی رکھتاہوں۔امام سابق بھی امامت چھوڑنا چاہتے تھے اورانھوں نے مجھ سے کہا کہ اب میں امامت کروں۔ شروع میں میں نے انکار کردیا کیوں کہ میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا۔۔۔۔؟؟

    سوال:

    حال ہی میں میں مسلمانوں کی ایک چھوٹی قوم کے پاس آیا۔ اس جگہ نہ تو کوئی عالم ہے اورنہ ہی کوئی حافظ۔یہاں کے مسلمانوں نے مجھے یہاں کی چھوٹی سی مسجد کا جو کہ یہاں پر ہے اس کا امام مقرر کردیا، کیوں کہ صرف میں ہی ایک ایسا مسلمان ہوں جوکہ سنتی لباس پہنتا ہوں اور پوری داڑھی رکھتاہوں۔امام سابق بھی امامت چھوڑنا چاہتے تھے اورانھوں نے مجھ سے کہا کہ اب میں امامت کروں۔ شروع میں میں نے انکار کردیا کیوں کہ میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا۔ لیکن یہاں کے مسلمان مجھے امام بنانے میں ثابت قدم رہے اور میری نامنظوری اور میرے یہ کہنے کو کہ میں امامت کے لائق نہیں ہوں انھوں نے میری بزرگی کے طور پر لیا۔ صرف عشاء اور جمعہ کی نمازمسجد میں ادا کی جاتی ہے۔اس وقت میں مسجد کا امام ہوں، عشاء اورجمعہ کی نمازپڑھاتا ہوں، خطبہ دیتا ہوں، تقریر کرتا ہوں، شریعت کے راستہ پر چلنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہوں۔ میری تلاوت قرآن بہت اچھی ہے، میری ایک مشت سے زائد داڑھی ہے، میں سنت لباس پہنتا ہوں، پائجامہ ٹخنوں سے اوپر ہوتا ہے، اور ہر ایک میرا بہت زیادہ احترام کرتا ہے۔ میں شریعت اورتاریخ کے بارے میں بہت اچھی معلومات رکھتا ہوں۔ اوریہاں کے لوگ میرا جمعہ کا بیان بہت زیادہ پسندکرتے ہیں ۔ تاہم میں اپنی ظاہر شباہت کے برخلاف بہت زیادہ گناہ گار شخص ہوں۔میں جس نماز کی امامت کرتاہوں یعنی (عشاء اورجمعہ) اس کے علاوہ کوئی نماز نہیں پڑھتاہوں۔ میں نہ تو قرآن پڑھتا ہوں اورنہ ہی ذکر کرتا ہوں۔ اور میں انٹرنیٹ پر فحش سائٹیں دیکھتاہوں۔میں ہرگھڑی توبہ کرتا ہوں، لیکن میرے گناہ والے کام تبدیل نہیں ہورہے ہیں۔ میں حقیقی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ مجھے امام نہیں بنناچاہیے۔تاہم اس قوم کے بقیہ مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ میں امام بننے کے لیے سب سے زیادہ مناسب اورموزوں شخص ہوں۔ میں اپنے بارے میں جو چیز سوچتا ہوں کہ وہ اچھی ہے وہ صرف میری ظاہری شباہت ہے، تاہم اندرونی طور پر میں اپنے آپ کو ایک منافق سمجھتاہوں۔اس قوم میں کچھ ایسے لوگ ہیں جن کے بارے میں میں سوچتاہوں کہ وہ روزانہ پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں، لیکن وہ اپنی داڑھی یا تو منڈاتے ہیں یا کاٹتے ہیں، اور اس کو ایک انچ سے زیادہ نہیں بڑھنے دیتے ہیں۔ ان کی قرآن کی تلاوت اورتلفظ اچھا نہیں ہے۔سب سے اہم بات یہ کہ ان کے پینٹ ٹخنوں سے نیچے ہوتے ہیں۔ مجھے بتائیں کہ کیا میرے لیے یہ درست ہے کہ میں یہاں امام اور خطیب رہوں یا مجھے امامت چھوڑ دینی چاہیے؟ اگر میں چھوڑنا چاہوں تو مجھے لوگوں کو کیا کہنا چاہیے؟اوران تمام نمازوں کے بارے میں کیا حکم ہے جو کہ انھوں نے میرے پیچھے ادا کی ہیں؟ یہ بات ذہن نشیں رہے کہ ہماری یہ جو مختصرقوم ہے اس میں کوئی حافظ یا عالم نہیں ہیں، اب اگلا امام کون ہوگا؟ برائے کرم اپنے مشورہ کے ساتھ جواب دیں،اوراگر آپ قرآن اورحدیث سے حوالہ دیں تو ان کوانگریزی میں ترجمہ کردیں۔ اللہ آپ کوجزائے خیر عطا فرمائے۔ میں اتنے طویل سوال کے لیے آپ سے معذرت خواہ ہوں۔

    جواب نمبر: 7093

    بسم الله الرحمن الرحيم

    فتوی: 1058=1031/ د

     

    اشادِ ربانی ہے: سَابِقُوْآ اِلَی مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُہَا السَّماواتِ وَالْاَرْضِ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور ایسی جنت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ ایسی جنت جس کی چوڑائی زمین وآسمان کے برابر ہے۔ آپ کے دل میں امامت جیسے اہم کام کے چھوڑنے کا خیال کیوں پیدا ہوا؟ آپ نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ اس ذمہ دارانہ کام کے لیے جن اوصاف کی ضرورت ہے انھیں میں پورے طور پر اپنے اندر پیدا کرلوں اور نقائص کو دور کرلوں۔ ایمان اور ایمانی اعمال میں ترقی کرنا انھیں کامل سے کامل تر بنانا مومن کا شیوہ ہے، لہٰذا آپ یہ کوشش کیوں نہیں کرتے کہ جو نقصائص آپ اپنے اندر پاتے ہیں انھیں دور کریں جس کا طریقہ یہ ہے کہ گناہوں سے صدق دل سے توبہ کریں اور یکلخت نہ سہی تو بتدریج انھیں بالکلیہ چھوڑدیں، اور جو نمازیں آپ اب تک نہیں پڑھتے تھے، انھیں پابندی سے ادا کرنے لگیں، جماعت سے ممکن ہو تو اس کا اہتمام کرکے ورنہ تنہا ہی۔ اور آہستہ آہستہ پچھلی فوت شدہ نمازوں کی قضا کرلیں، لوگوں کا حسن ظن آپ کے ساتھ ظاہری شکل و صورت میں اور بیان و تقریر کی بنا پر ہے تو آپ ان کے حسن ظن کو باقی رکھیں اور ظاہر کے ساتھ باطن کی درستگی کی فکر کریں۔ آپ توبہ کرتے ہیں لیکن برے کام آپ سے چھوٹ نہیں رہے ہیں، اس کی وجہ توبہ میں اخلاص اور صدق کی کمی ہے، گناہوں کا انجام قبر کا عذاب، جہنم کی سزا، میدانِ محشر کی سختی اور وہاں کا سوال و جواب آپ کے پیش نظر نہیں ہے، ?موت کی یاد? موٴلفہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب قدس سرہ کا مطالعہ کریں۔ جزاء الاعمال، تعلیم الدین موٴلفہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ کا مطالعہ کریں، تو ان شاء اللہ دل کی دنیا بدل جائے گی اور توبہ میں صدق و اخلاص پیدا ہوگا۔ پھر ہمت کرکے گناہوں کو ترک کردیں۔ ظاہری اعتبار سے جب کوئی دوسرا آپ سے بہتر شخص امامت کے لیے موجود نہیں ہے تو آپ امامت ترک نہ کریں۔ اخلاص، قبولیت اور توفیقِ مزید کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں۔ پچھلی نمازوں کی قبولیت کا علم تو آخرت میں ہوگا، ہم دنیا میں شریعت وسنت کے مطابق انہیں ادا کرتے رہیں، اور اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دعا کرتے رہیں بس یہی کافی ہے۔ اپنے بارے میں نفاق کا شبہ ہونا تو برا نہیں ہے حضراتِ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنے بارے میں اس طرح کے وساوس وشبہات آتے تھے، لیکن اس سے متأثر ہوکر کسی نیک عمل کو ترک کردینا بہت برا ہے۔ آگے بڑھنے اور اعمال خیر میں ترقی کرنے کی سوچئے، گناہوں کو ترک کرکے اچھائیاں پیدا کرنے کی فکر کیجیے، ایک گناہ خواہ کتنا ہی بڑا ہو یا بہت سے گناہوں کی وجہ سے کسی اچھے کام کو ترک کردینا بہت بڑی محرومی اور خسارے کی بات ہے۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند