• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 62556

    عنوان: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام، اس مسئلہ کے بارے میں ، میں سعودی عرب میں رہتاہوں ، میں حنفی ہوں، سعودی میں عام رواج یہ ہے کہ لوگ ہر جگہ نماز ادا کرتے ہیں ، خواہ مسجد ہو یا آفس میں کسی جگہ پر مصلی بچھا کر جماعت سے نماز ادا کرتے ہیں ، کیا ایسی جگہ پر دو یا تین یا چار جماعت بنا کر نماز ادا کرتے ہیں ، ایسی صورت میں حنفی کیا کرے ؟ کیا جماعت میں شامل ہونا جائز ہے یا پھر اپنی انفرادی نماز پڑھ لے؟اگر ہم انفرادی نماز بھی پڑھتے ہیں تو یہ لوگ سعودی اور اجنبی دونوں کبھی بھی وہ ہمیں آکر صرف چھوتے ہیں اور وہ ہمیں امام بنا کر ہمارے پیچھے کھڑے ہوجاتے ہیں اس وقت حنفی کو کیا کرنا چاہئے ؟ ہم تو نماز میں رہتے ہیں ، اب دوران نماز بات تو نہیں کرسکتے ، ایسی صورت میں کیا حکم ہے؟

    سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام، اس مسئلہ کے بارے میں ، میں سعودی عرب میں رہتاہوں ، میں حنفی ہوں، سعودی میں عام رواج یہ ہے کہ لوگ ہر جگہ نماز ادا کرتے ہیں ، خواہ مسجد ہو یا آفس میں کسی جگہ پر مصلی بچھا کر جماعت سے نماز ادا کرتے ہیں ، کیا ایسی جگہ پر دو یا تین یا چار جماعت بنا کر نماز ادا کرتے ہیں ، ایسی صورت میں حنفی کیا کرے ؟ کیا جماعت میں شامل ہونا جائز ہے یا پھر اپنی انفرادی نماز پڑھ لے؟اگر ہم انفرادی نماز بھی پڑھتے ہیں تو یہ لوگ سعودی اور اجنبی دونوں کبھی بھی وہ ہمیں آکر صرف چھوتے ہیں اور وہ ہمیں امام بنا کر ہمارے پیچھے کھڑے ہوجاتے ہیں اس وقت حنفی کو کیا کرنا چاہئے ؟ ہم تو نماز میں رہتے ہیں ، اب دوران نماز بات تو نہیں کرسکتے ، ایسی صورت میں کیا حکم ہے؟

    جواب نمبر: 62556

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 144-153/N=3/1437-U (۱) : اگر مسجد، مسجد محلہ ہے، مسجد طریق نہیں ہے، یعنی: اس مسجد میں پانچوں وقت کی نماز باجماعت ہوتی ہے اور اس میں مستقل طور پر امام اور موٴذن اور دیگر اہل محلہ ہیں تو اس میں اگر مسجد شرعی کی حدود میں اہل محلہ نے نماز باجماعت ادا کرلی تو اب اس میں دوسری یا تیسری جماعت کرنا مکروہ ہے، اس کے علاوہ مسجد شرعی کی حدود سے باہر، مسجد کے وضو خانہ وغیرہ کے پاس یا کسی آفس یا گھر وغیرہ میں ایک بار نماز باجماعت ہوجانے کے بعد دوسری یا تیسری جماعت کرنا بلا کراہت درست ہے۔ اور چوں کہ مسجد کی جماعت سب سے افضل ہے؛ لہٰذا آپ اپنی قیام گاہ سے نکل کر قریب کی کسی مسجد میں نماز باجماعت ادا کیا کریں، اور اگر کبھی اتفاقاً کسی عذر کی بنا پر مسجد کی جماعت کا وقت نکل جائے تو آفس یا گھر وغیرہ میں نماز باجماعت ادا کرنے میں شرعاً کچھ حرج نہیں۔ اور سعودی عرب میں حنبلی مسلک والوں کی اکثریت ہے اور ان کے یہاں جماعت فرض ہے، البتہ صحت نماز کے لیے شرط نہیں، نیز وہ حضرات مسجد میں جماعت ثانیہ کے جواز کے قائل ہیں؛ اس لیے وہ حضرات مسجد محلہ میں بھی جماعت ثانیہ کرلیتے ہیں، آپ مسجد محلہ کی جماعت ثانیہ میں شرکت نہ کیا کریں، البتہ اگر آفس یا گھر وغیرہ میں جماعت ثانیہ ہورہی ہو تو اس میں شرکت کرلیں بشرطیکہ امام ایسا شخص ہو جو مختلف فیہ مسائل میں حنفی مقتدیوں کی رعایت کرتا ہو، یعنی: کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے اس کے پیچھے حنفی مقتدیوں کی نماز نہ ہو مثلاً سوتی موزوں پر مسح نہیں کرتایا خون نکل کر بہہ جانے کے بعدوضو دوبارہ کرلیتا ہے وغیرہ وغیرہ، اور اگر وہ ان چیزوں کی رعایت نہیں کرتا تو اکیلے نماز پڑھی جائے، غیر حنفی امام کے پیچھے نہ پڑھی جائے۔ قال فی الدر (مع الرد، کتاب الصلاة، باب الأذان ۲: ۶۴ ط مکتبة زکریا دیوبند) : و - کرہ- تکرار الجماعة إلا في مسجد علی طریق فلا بأس بذلک، جوھرة اھ، وفی الرد: قولہ: ”وتکرار الجماعة“ : لما روی عبد الرحمن بن أبي بکر عن أبیہ ”أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرج من بیتہ لیصلح بین الأنصار فرجع وقد صلی فی المسجد بجماعة، فدخل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في منزل بعض أھلہ فجمع أھلہ فصلی بھم جماعة“۔ ولو لم یکرہ تکرار الجماعة فی المسجد لصلی فیہ، وروي عن أنس ”أن أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانوا إذا فاتتھم الجماعة فی المسجد صلوا فی المسجد فرادی“ ، ولأن التکرار یوٴدي إلی تقلیل الجماعة؛ لأن الناس إذا علموا أنھم تفوتھم الجماعة یتعجلون فتکثر وإلا تأخروا اھ بدائع۔ وحینئذ فلو دخل جماعة المسجد بعد ما صلی أھلہ فیہ فإنھم یصلون وحدانا، وھو ظاھر الروایة۔ ظھیریة اھ، وفی الدر (مع الرد، کتاب الصلاة، باب الإمامة ۲: ۲: ۲۸۸) : ویکرہ تکرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طریق الخ۔ وفی الرد: قولہ: ”ویکرہ“ أي: تحریماً لقول الکافي: لایجوز، والمجمع: لا یباح، وشرح الجامع الصغیر: إنہ بدعة کما في رسالة السندي، ……۔ ثم قال فی الاستدلال علی الإمام الشافعي النافي للکراھة ما نصہ: ”ولنا أنہ علیہ الصلاة والسلام کان خرج لیصلح بین قوم فعاد إلی المسجد وقد صلی أھل المسجد فرجع إلی منزلہ فجمع أھلہ وصلی“ ، ولو جاز ذلک لما اختار الصلاة في بیتہ علی الجماعة فی المسجد، ولأن فيالإطلاق ھکذا تقلیل الجماعة معنیً فإنھم لا یجتمعون إذا علموا أنھا لاتفوتھم، …… اھ، ومثلہ فی البدائع وغیرھا، ومقتضی ھذا الاستدلال کراھة التکرار في مسجد المحلة ولو بدون أذان، ویوٴیدہ ما فی الظھیریة: لو دخل جماعة المسجد بعد ما صلی فیہ أھلہ یصلون وحداناً وھو ظاھر الروایة اھ، ………، وعن ھذا ذکر العلامة الشیخ رحمہ اللہ السندي تلمیذ المحقق ابن الھمام في رسالتہ أن ما یفعلہ أھل الحرمین من الصلاة بأئمة متعددة وجماعات مترتبة مکروہ اتفاقاً، ونقل عن بعض مشایخنا إنکارہ صریحاً حین حضر الموسم بمکة سنة ۵۵۱ منھم الشریف الغزنوي، وذکر أنہ أفتی بعض المالکیة بعدم جواز ذلک علی مذھب العلماء الأربعة، ونقل إنکار ذلک أیضاً عن جماعة من الحنفیة والشافعیة والمالکیة حضروا الموسم سنة ۵۵۱ اھ وأقرہ الرملي في حاشیة البحر اھ، وقال في غنیة الناسک (ص ۵۱، ۵۲ طبع قدیم) : تنبیہ: تکرار الجماعة مکروہ في ظاہر الروایة کراھة تحریم لما قال فی الکافي: إنہ لا یجوز، وفي شرح المجمع: لا یباح، وفي شرح الجامع الصغیر: بدعة کذا فی الدر۔ وفی الدر أیضا: ما اتفق علیہ أصحابنا فی الروایات الظاھرة یفتی بہ قطعاً اھ، وقال في معارف السنن (۲: ۲۸۵ ط مکتبة الأشرفیة دیوبند) : وکذلک تکرہ تحریماً من غیر إعادتھما عند أبي حنیفة، وھو ظاھر الروایة کما في رد المحتار (۱: ۵۱۷) (باب الإمامة) ، وفي (ص ۳۶۷) من الأذان حکاہ عن الظھیریة۔ وفي روایة شاذة عن أبي یوسف أنہ لا تکرہ إذا لم تکن الجماعة علی الھیئة الأولی، حکاہ إبراھیم الحلبي في شرح المنیة وابن عابدین وغیرھما بلفظ: وروي عن أبي یوسف الخ، امداد الاحکام (۲: ۱۱۱، فصل فی الإمامة والجماعة، سوال: ۱، مکتوبہ: ۲۲/ ربیع الثانی ۱۳۴۰ھ، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) میں کچھ فقہی عبارات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ان عبارات سے معلوم ہوا کہ بصورت مذکورہ مسجد محلہ میں جس میں امام وموٴذن مقرر ہیں جماعت ثانیہ مکروہ ہے، مگر بتغییر ہیئت امام ابویوسف کے قول پر گنجائش ہے، لیکن ہمارے مشائخ نے انتظام عوام کے لیے اس پر فتوی نہیں دیا؛ بلکہ مسجد محلہ میں جہاں امام وموٴذن مقرر ہوں مطلقاً کراہت کا فتوی دیا ہے، واللہ أعلم۔ حاشیہ میں ہے: ”مطلقا کراہت کا فتوی دیا ہے“ ، قلت: وھو الذي یمیل إلیہ القلب لقوة دلیلہ؛ فإن علة الکراھة وھي مظنة التھاون موجودة بعد تغیر الھےئة أیضاً، واللہ اعلم ۱۲ ظ۔ اور امداد الاحکام (۲: ۱۳۵) میں ہے: ولا یخفی أن العلة التی ذکرھا الشافعی أشد وأحذر وأکثر وقوعا واحتمالاً لا سیما فی زمان الفساد وانقطاع الوداد، ومقتضاھا کراھة التکرار ولو بدون أذان، ھذا ھو الحق الراجح عندی، والمراد بالکراھة کراھة التحریم اھ قال في رد المحتار (کتاب الصلاة، باب الإمامة ۲: ۳۰۴ ط مکتبة زکریا دیوبند) : والذي یمیل إلیہ القلب عدم کراھة الاقتداء بالمخالف ما لم یکن غیر مراع فی الفرائض؛ لأن کثیراً من الصحابة والتابعین کانوا أئمة مجتھدین وھم یصلون خلف إمام واحد مع تباین مذاھبھم اھ، وفي حاشیة جلبی علی التبیین (۱: ۳۴۰، ۳۴۱ ط مکتبة زکریا دیوبند) : الجماعة فرض عین لکن لیست شرطاً لصحة الفرض وھو الصحیح من قول أحمد اھ ومثلہ فی غنیة المستملي (ص ۴۳۸ ط مکتبة: دار الکتاب دیوبند)۔ (۲) : اس صورت میں دوران نماز آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، البتہ نماز سے فارغ ہوکر اقتدا کرنے والوں کو بتادیں کہ میں فلاں نماز پڑھ رہا تھا تاکہ اگر آپ کی نماز سنت اور ان کی نماز فرض ہو یا ان کا فرض آپ کے فرض سے مختلف ہو اور وہ حنفی ہوں تو اپنی نماز دوبارہ پڑھ لیں، اور اگر وہ حنبلی وغیرہ ہوں تو وہ اپنے مسلک کے مطابق عمل کریں گے، آپ کو ان سے الجھنے کی ضرورت نہیں، نیز مسجد محلہ میں کوئی فرض نماز تنہا پڑھنے کی صورت میں اگر کوئی شخص آکر آپ کی اقتدا کرلے تو آپ امامت کی نیت نہ کریں تاکہ جماعت ثانیہ کی کراہت میں آپ کی شرکت نہ ہو، قال فی الدر (مع الرد، کتاب الصلاة، باب الإمامة ۲: ۳۲۴، ۳۲۵ ط: مکتبة زکریا دیوبند) : ولا مفترض بمتنفل وبمفترض فرض آخر؛ لأن اتحاد الصلاتین شرط عندنا، وصح أن معاذاً کان یصلي مع النبي صلی اللہ علیہ وسلم نفلاً وبقومہ فرضاً اھ وانظر الرد أیضاً۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند