• عبادات >> صلاة (نماز)

    سوال نمبر: 67254

    عنوان: ایک ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے جو تعو یذ ات کرتے ہے ؟

    سوال: (۱) ایک ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے جو تعو یذ ات کرتے ہے ؟ (۲) جائز و ناجائز تعویذات کے بارے میں وضاحت فرمائیں۔

    جواب نمبر: 67254

    بسم الله الرحمن الرحيم

    Fatwa ID: 966-1012/N=10/1437 (۱): اگر سوال میں مذکور امام عملیات کے فن سے واقف ہے اور صرف جائز تعویذات اور جھار پھونک کرتا ہے اور اس میں حدود شرع کی رعایت وپاس داری کرتا ہے تو اس کے پیچھے نماز بلا کراہت جائز ہے۔ اور اگر صورت واقعہ کچھ ا ور ہو تو حکم بدل سکتا ہے۔ (۲):اگر تعویذ میں کوئی شرکیہ ،کفریہ چیز نہ ہو ، نیز غیر معلوم المعنی الفاظ بھی نہ ہوں ؛ بلکہ اس میں قرآنی آیات، اسمائے حسنی ، منقول دعائیں یا کوئی جائز دعا وغیرہ ہو تو وہ تعویذ جائز ودرست ہے اور ایسا تعویذ بنانا اور پہننا بھی جائز ہے،البتہ تعویذ کو موٴثر بالذات نہ سمجھا جائے۔ اور جس تعویذ میں کوئی شرکیہ، کفریہ چیز ہو، مثلاً اس میں غیر اللہ کی دہائی اور اس سے استعانت وغیرہ کے الفاظ ہوں یا اس میں مجہول المعنی الفاظ ہوں تو وہ ناجائز تعویذ ہے، اس کا بنانا اور پہننا دونوں ناجائز ہیں، عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یعلمہم من الفزع کلمات: أعوذ باللّٰہ بکلمات اللّٰہ التامة من غضبہ وشر عبادہ، ومن ہمزات الشیاطین وأن یحضرون،وکان عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ یعلمہن من عقل من بنیہ، ومن لم یعقل کتبہ فأعلقہ علیہ( ابو داود شریف،کتاب الطب، باب کیف الرقی، ص ۵۴۳، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)،وقد جاء في بعض الأحادیث جواز الرقي، وفي بعضہا النہي عنہا، فمن الجواز قولہ علیہ السلام: استرقوا لہا فإن بہا النظرة أي أطلبوا لہا من یرقیہا ومن النہي قولہ لا یسترقون ولا یکتوون، والأحادیث في القسمین کثیرة، ووجہ الجمع بینہما أن الرقي یکرہ منہما ما کان بغیر اللسان العربي وبغیر أسماء اللّٰہ تعالیٰ وصفاتہ وکلامہ في کتبہ المنزلة وأن یعتقد أن الرقیة نافعة لا محالة فیتکل علیہا وإیاہا (عمدة القاری ۲۱:۲۶۲، مطبوعہ:دار الکتب العلمیہ بیروت)،ولا بأس بالمعاذات إذا کتب فیہا القرآن، أو أسماء اللّٰہ تعالیٰ، … وإنما تکرہ العوذة إذا کانت بغیر لسان العرب، ولا یدري ما ہو، ولعلہ یدخلہ سحر أو کفر أو غیر ذٰلک، وأما ما کان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس بہ (شامی ، کتاب الحظر والإباحة، فصل في اللبس ۹:۵۲۳، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند،اور شامی نعمانیہ ۵: ۲۳۲، بحوالہ: مجتبی)، وأما ما کان من الآیات القرآنیة والأسماء والصفات الربانیة والدعوات المأثورة النبویة فلا بأس؛ بل یستحب، سواء کان تعویذًا أو رقیةً أو نشرةً، وأما علی لغة العبرانیة ونحوہا فیمتنع لاحتمال الشرک فیہا(مرقاة المفاتیح ۸:۳۶۰،۳۶۱ ، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)، نیز احسن الفتاوی (۸: ۲۵۶) دیکھیں۔


    واللہ تعالیٰ اعلم


    دارالافتاء،
    دارالعلوم دیوبند